فضیلت جنگ امام محمد انوار اﷲفاروقی رحمۃ اﷲعلیہ، مؤسس جامعہ نظامیہ
اوائل میں لفظ امام بادشاہِ وقت کے معنی میں مستعمل تھا جیساکہ احادیث سے ظاہرہے اور باوجودیہ کہ اہل بیت کرام کو یہ خدمت نہ تھی مگر وہ بھی امام سمجھے جاتے ہیں ۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟
صواعق محرقہ میں ابن حجر رحمۃ اﷲعلیہ نے لکھا ہے کہ ایک روز خلیفہ رشید نے دیکھا کہ امام موسٰی کاظم رضی اﷲعنہ کعبہ شریف کے پاس بیٹھے ہیں، کہا کیا آپ ہی پوشیدہ لوگوں سے بیعت لیا کرتے ہیں فرمایا ہاں۔ میں دلوں کا امام ہوں اور تم اجسام کے ۔ مطلب یہ ہے کہ ہماری بیعت دوسری قسم کی ہے یعنی دلوں کو معرفت الٰہی سے منور کرتی ہے اس سلطنت سے کوئی تعلق نہیں ۔ فی الواقع یہی امامت مقصود بالذات ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ کی بعثت اسی غرض سے کہ سرگشتگان وادئی ضلالت کوہدایت عطا کرکے خدائے تعالی تک پہنچادیں ۔
بعثت سے مقصود بالذات سلطنت نہیں کیونکہ سلاطین فقط تمدن قائم کرنے کے لئے ہوتے ہیں خواہ شرعی اصول پر ہویاقانونی ۔ امام جعفر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ امام کا نور جو مسلمانوں کے دلوں میں ہوتا ہے خداکی قسم وہ مسلمانوں کے دلوںکو روشن کردیتاہے۔ یہ وہ نور ہے جو طالبین حق کے دلوں میں ہوتا ہے جس سے ان سلوک میںمدد ملتی ہے اور مسالک طریقت کو روز روشن کی طرح منور کردیتا ہے ۔ یہ نور اس امام القلوب کا ہوتا ہے جو خدارسیدہ ہو اور دوسروں پر اپنا اثر ڈال سکے ۔ بخلاف امام اجسام کے کہ خوں ریز اور فاجر بھی ہوتو سکتاہے اس سے اس کو کوئی تعلق نہیں ۔ ابوجعفر علیہ السلام نے فرمایاائے ابوحمزہ تم زمین پر چند فرسخ چلتے ہو تو ایک رہبر کو ساتھ لیتے ہو حالانکہ زمین کی راہوں سے آسمان کی راہیں زیادہ تر مجہول ہیں ۔ ان راہوں کی ہدایت کے لئے رہبر کی زیادہ ضرورت ہے ، اس لئے ایک رہبر اپنے لئے طلب کرو ۔ مقصود یہ ہے کہ راہ خدا طلبی میں پیر کامل کی اشد ضرورت ہے ۔ حضرت اما م رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ امام اپنے زمانے میں یگانہ اور بے نظیر ہوتاہے اور اس کے فضائل اکتسابی نہیں ہوتے بلکہ حق تعالی کی طرف سے اس کو خصوصیت ہوتی ہے ۔ امام کی معرفت کسی کو نہیں ہوسکتی اس کے ایک ایک وصف میں عقل حیران ہوتی ہے ۔اس امام کو اصطلاح ِصوفیہ میںقطب کہتے ہیں ۔وہچندآدمیوںمیں ملے جلے رہتے ہیں مگر ان کو کوئی نہیں پہچان سکتا اور کمالات ان کے وہبی ہوتے ہیں اولیاء اﷲ ان سے وصول الی اﷲ کے طریقے معلوم کرتے ہیں ان کو ظاہری سلطنت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
( از : مقاصد الاسلام ، حصہ ششم)