سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید اپنی زوجہ ہندہ کو اپنے مکان میں چھوڑ کر ایک عرصہ سے غائب ہے، ہندہ نے حنفی قاضی کے پاس زوج کے غائب ہونے کی اور نفقہ کی سخت تکلیف ہونے کی کیفیت بیان کی، تو اس نے ہندہ کی ایسی حالت کے پیش نظر بربناء قول امام شافعی اس کا نکاح فسخ کردیا۔ اور بعد ختم عدت دوسرے سے نکاح کرنے کی تلقین کی۔
ایسی صورت میں حنفی المذہب شخص کے فیصلہ کیوجہ فسخ نکاح کا کیا حکم ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب: شرعاً زوجہ کو چاہئے کہ قاضی (حاکم عدالت) کے پاس نفقہ کی اپنی شکایت پیش کرے، اگر زوج کا مال ہے تو قاضی حسبِ ضرورت اسکو خرچ کرنے کی اجازت دے، اگر مال نہیں ہے تو اسکو اجازت دے کہ کسی سے قرض لیکر کام چلائے۔ اور زوج کی واپسی کے بعد وہ رقم اس سے حاکم کے حکم سے وصول کیجائے۔ درمختار باب النفقۃ میں ہے : ولو غاب ولہ زوجۃ و صغار تقبل بینتھا علی النکاح ان لم یکن عالما بہ ثم یفرض لھم ثم یأمرھا بالانفاق او الاستدانۃ لترجع۔
تاہم قرض کی صورت میں بھی نفقہ وصول ہونے کی امید نہ ہو تو ایسی شدید ضرورت کے وقت فقہائے احناف نے دفع حاجت کیلئے یہ طریقہ بتلایا ہے کہ حاکم کسی شافعی المذہب کو اپنا نائب بناکر مقدمہ اس کے حوالے کردے۔ اور وہ اپنے مذہب کے موافق زوجین میں تفریق کردے، تو یہ تفریق صحیح ہوجائیگی۔ اور نکاح فسخ ہوجائیگا۔ شرح وقایہ جلد دوم باب النفقۃ میں ہے: واصحابنا لما شاھدوا الضرورۃ فی التفریق لأن دفع الحاجۃ الدائمۃ لا یتیسر بالاستدانۃ والظاہر انھا لاتجد من یقرضھا و غنی الزوج فی المآل امر متوھم استحسنو ان ینصب القاضی نائباً شافعی المذھب یفرق بینھما۔ اور فتاوی خیریہ کے جلد اول ص ۷۲ میں ہے : وقد اختار کثیر من علمائنا ذلک عند شدۃ الضرورۃ وھو مما یتشرح صدر الفقیہ لہ لما فیہ من دفع الحرج والاضرار۔ اگر کوئی حنفی حاکم اپنے مذہب کے خلاف دوسرے امام یعنی شافعی رحمۃ اﷲ علیہ کے مذہب کے موافق حکم دے تو یہ حکم باطل ہے۔ درمختار جلد ۴ کی کتاب القضاء ص ۳۷۱ میں ہے : (قضیفی مجتھد فیہ بخلاف رأیہ) ای مذہبہ مجمع وابن کمال (لا ینفذ مطلقا) ناسیا أو عامدا عندھما والأئمۃ الثلاثۃ وبہ یفتی۔ صفحہ ۳۷۲میں ہے : قضی من لیس مجتھدا کحنفیۃ زماننا بخلاف مذہبہ عامدا لا ینفذ اتفاقاوکذا ناسیا۔ ردالمحتار میں ہے: (قولہ ای مذہبہ) کالحنفی اذا حکم علی مذہب الشافعی أو نحوہ أو بالعکس۔ لہذا حنفی قاضی نے جو فیصلہ دیا وہ مذہب حنفی کے بالکل خلاف ہے۔ دونوں میں نکاح برقرار ہے۔
فقط واﷲ أعلم (ورسولہ)
مفقودالخبر
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شوہر لاپتہ ہوگیا ہے اور بعد تلاش اس کی کوئی خبر و اطلاع نہیں ہے۔ اوریہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا مرگیا؟ایسی صورت میں بیوی کیلئے شرعاً کیا حکم ہے؟
جواب: شوہر لاپتہ اور مفقودالخبر ہے اور باوجود تلاش پتہ نہ چلتا ہو کہ زندہ بھی ہے یا نہیں تو ایسی صورت میں عورت کو چاہئے کہ قاضی (مسلم حاکم عدالت) کے پاس رجوع ہو کیونکہ قاضی کو ہی اس قسم کی تفریق کا حق حاصل ہے۔ قاضی (مسلم حاکم عدالت) بعد ثبوت و صحت دعوی مفقودیت حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ کے بموجب تاریخ رجوع سے چار سال گذرنے کے بعد مفقود کی موت قرار دے کر تفریق کا حکم صادر کرے اور عورت عدت وفات (یعنی چار ماہ دس یوم) ختم کرکے دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہے۔ ہدایہ کتاب المفقودمیں ہے: وقال مالک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ اذا مضی لہ اربع سنین یفرق القاضی بینہ و بین امرأتہ و تعتد عدۃ الوفاۃ ثم تتزوج من شائت۔ اور ردالمحتار جلد سوم ص ۳۶۲ میں ہے: قال القہستانی ولو أفتی بہ فی موضع الضرورۃ لابأس بہ علی ما أظن ۔