فسادات کے ملزمین کو سزا !

حکمراں طبقہ کے افراد کو یہ گمان ہوتا ہے کہ ان تک قانون کا شکنجہ پہونچ نہیں سکتا لیکن جب یہ طبقہ حکمرانی سے دور ہوتا ہے تو اس کے ماضی کے گناہ اس کا تعاقب کرتے ہوئے سزا سنا دیتے ہیں ۔ 1984 کے سکھ فسادات میں کانگریس کے لیڈر سجن کمار کو تاحیات قید کی سزا سنائی گئی ۔ اس پر وزیراعظم نریندر مودی کا ردعمل بھی غور طلب ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سکھ فسادات کیس میں یہ کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ کانگریس قائدین کو سزا ہوگی ۔ چار سال قبل تک یہ تصور ہی ممکن نہیں تھا کہ کانگریس قائدین تک قانون کا ہاتھ پہونچے گا۔ سکھ قتل عام کے مجرمین کو سزا ملے گی اور متاثرین کے ساتھ انصاف ہوگا ۔ بلا شبہ وزیراعظم کا یہ بیان اپنے آپ ایک تصدیق شدہ جملہ ہے کہ آج وہ اقتدار پر ہیں تو ان تک بھی گجرات مسلم کش فسادات کے کیس میں ملزم پائے گئے افراد تک قانون کا ہاتھ نہیں پہونچ پارہا ہے اور کل ہوسکتا ہے کہ یہ قانون مسلم کش فسادات کے ملزمین کو بھی سزا سنادے اور متاثرین کے ساتھ انصاف ہوجائے ۔ جیسا کہ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے توقع ظاہر ہے کہ کانگریس لیڈر سجن کمار کو سنکھ فسادات میں سزا دی گئی ہے تو پھر گجرات اور مظفر نگر میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے والوں کو بھی سزا ہوگی ۔ اس ملک کا عام شہری امن پسند اور بھائی چارہ سے رہنے کا خواہاں ہوتا ہے لیکن یہ تو ان لوگوں کا کام ہے جو اس طرح کے فسادات کروا کر اپنا سیاسی مفاد حاصل کرتے ہیں ۔

اروند کجریوال نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے لیکن اس فیصلہ کے لیے کافی وقت لگادیا گیا ۔ اس طرح 2002 کے گجرات فسادات اور 2013 کے مظفر نگر فسادات کے ملزمین کو بھی سزا ملنی چاہئے ۔ اگر فسادیوں کو سخت سزائیں دی جائیں تو اس طرح کے واقعات مستقبل میں رونما نہیں ہوں گے ۔ ملک کے قانونی نظام کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ۔ بڑے پیمانے پر کئے جانے والے جرائم کو روکنے کے لیے مجرمین کو سزا دینا ضروری ہے جیسا کہ وزیراعظم مودی نے مخالف سکھ فسادات میں سجن کمار کو سزا دئیے جانے کا خیر مقدم کیا اور اپنی دانش کے مطابق اظہار خیال کیا ہے تو پھر ان کے سامنے انصاف کا تقاضہ نمودار ہو کر یہ مطالبہ کرے گا کہ گجرات فسادات اور دیگر فرقہ وارانہ فسادات کے مجرمین کو بھی سزا ہونی چاہئے ۔ جو خود بھلے بننے میں اوروں کو بُرا کہتے ہیں وہ عام خیال میں یہ لوگ ناقص العقل سمجھے جاتے ہیں ۔ وہ کیا کہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں کچھ سمجھ نہیں آتا ۔ ان کے عقل میں عضو مفلوج کی مانند بیکار ثابت ہوتے ہیں ۔ جب سکھ فسادات کے ملزمین کو سلاخوں کے پیچھے عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے تو اس ملک کے قانون انصاف سے امید پیدا ہوتی ہے کہ گجرات فسادات کے ملزمین کو بھی کیفر کردار تک پہونچایا جائے گا بلکہ فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا جائے تو ہندوستان میں فرقہ پرستوں کا خاتمہ ہی ہوجائے گا ۔ ہندوستانی سماج ایک زندہ حقیقت اور امن پسندی کا مرکز ہے ۔ اس بہترین سماجی وجود کو منتشر کرنے والی سازشی طاقتوں کو ناکام بنانا بھی اس سماج کے مضبوط افراد کی ذمہ داری ہے ۔ عہد حاضر کی سیاسی چالیں اتنی خطرناک ہوتی جارہی ہے کہ اس سے بچ نکلنے کے لیے ہندوستانی عوام کو منظم طریقہ سے اپنے اتحاد کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہندوستان میں اس ملک کی آنے والی نسلوں کیلئے ایسے پرامن ماحول میسر ہوجائے کیوں کہ ہندوستان کی آنے والی نسلیں ہی اس ملک کی دعا ہیں ۔ انہیں ہم ورثے میں ایک انصاف پسند معاشرہ دینے کی تیاری کرلیں تو بلا شبہ سکھ فسادات ، گجرات فسادات جیسے بھیانک واقعات کا اعادہ نہیں ہوپائے گا ۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے اس ملک میں کتنے بھی قتل عام ہوئے ہیں ان میں اصل نشانہ مسلمان ہی رہے ہیں مگر قتل عام کے ان سنگین واقعات میں ملوث افراد کو سزائیں نہیں دی گئیں ۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس پر ہر امن پسند دل ماتم کرتا ہے ۔۔