مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ
دینی احکام کا وہ اختلاف جو علمی بنیادوں پر فروعی مسائل میں صدر اسلام سے چلا آرہا ہے اور آگے بھی وہ باقی رہے گا، یہ وہ اختلاف ہے جو صحابہ و تابعین اور محدثین و فقہا کے درمیان رہا ہے، وہ اختلاف ناپسندیدہ نہیں ہے کیونکہ اس اختلاف کی بنیاد خواہش نفس کی تعمیل پر نہیں ہے بلکہ مرضیات رب کی تلاش ہے، ایسے ہی اختلاف کے بارے میں حضور سید عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت کا اختلاف رحمت ہے، اختلاف امتی رحمۃً۔ لیکن یہ فروعی اختلافات خدا نخواستہ اگر دین کی اصل قرار دے لئے جائیں تو پھر وہ بھی رحمت کے بجائے زحمت بن جاتے ہیں، اس کی وجہ سے بھی امت کا اتحاد پارہ پارہ ہو سکتا ہے اللہ سبحانہ رحمت فرمائے ہمارے اکابرین و سلف صالحین پر کہ انہوں نے اصولوں کو اصول کی جگہ اور فروعات کو فروع کی جگہ رکھ کر امت کو اختلاف و انتشار سے بچانے کی بڑی کامیاب کوشش کی ہے، جس کی وجہ یہ امت اس پہلو سے اختلاف و انتشار سے محفوظ رہی ہے لیکن ادھر چند دنوں سے سماج میں فروعی مسائل پر بڑی محنتیں صرف ہو رہی ہیں، اور وہ مسائل جن کا اسلام کے بنیادی و اصولی احکام سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کو بنیادی حیثیت دی جارہی ہے اور امت کا ایک بہت بڑا طبقہ اب ان مسائل کی وجہ دست بگریباں ہے،
اور کچھ وہ اہل علم بھی جو گہرائی اور گیرائی کے حامل نہیں ہوتے اور جن کا مطالعہ صرف اک طرفہ ہوتا ہے، دوسرے فریق کے استدلالات پر کوئی نظر نہیں ہوتی وہ بھی ان عوام کے ساتھ ہو جاتے ہیں جن کا مبلغ علم صفر کے درجہ میں ہوتا ہے، جو سطحی معلومات کی بنیاد پر نئے نئے بکھیڑے کھڑے کرتے ہیں فریق مخالف پر الزامات و اتہات کی بوچھار ہونے لگتی ہے یہ صورتحال اس وقت خطرناک موڑ اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہے اس پر قدغن لگانا اہل علم کا فرض ہے، جیسے ہمارے اسلاف نے اصول و فروع میں خطِ امتیاز قائم فرمایاتھا وہ اب ٹوٹ رہا ہے اور وہ لکیر جو ان کے درمیان قائم کی گئی تھی وہ آہستہ آہستہ مٹتی جارہی ہے ضرورت اس بات کی ہے اس کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کی جائے اسی میں امت کے لئے عافیت و رحمت ہے، اور اسی سے اتفاق کی ڈور سلامت رہ سکتی ہے،ہوا اور خواہش نفس جہاں فروغ پا جائے وہاں اختلاف کی راہ بنتی ہے، پھر فروع تو فروع اصول میں اختلاف ہونے لگتا ہے، واضح احکام و ہدایات آجانے کے باوجود اہل کتاب کے ہاں جو اختلاف رہا ہے
ظاہر ہے وہ اصول ہی میں رہا ہے امتوں میں تباہی و بربادی اسی راہ سے آتی ہے ہواء نفس اگر ہوا ہو جائے تو پھر اختلاف کی گنجائش ہی کہاں باقی رہ سکتی ہے، اصول تو اصول ہیں فروع میں بھی اختلاف باقی نہیں رہتا ، فروعات میں اختلاف دراصل نصوص کے واضح ہدایات نہ ہونے کی بناء پر ہوتا ہے یا پھر نصوص میں تعارض کی بناء پر، نصوص کے ظاہری تعارض کی وجہ فروعی مسائل میں جو اختلاف آجاتا ہے وہ فکری، علمی و اجتہادی اختلاف کہلاتا ہے مرفوع حدیث پاک کی رو سے یہ اختلاف مذموم نہیں بلکہ محمود ہے، مجتہد اپنے اجتہاد میں حق و صواب کو پہونچ جائے تو وہ دوہرے اجر کا مستحق ہوگا، اجتہاد میں خطاء ہو جائے تب بھی وہ محروم نہیں بلکہ اجتہادی خطا پر بھی اس کے نامہ اعمال میں ایک اجر محفوظ کر دیا جائے گا۔ ان جیسے مسائل میں رد و قدہ کرنا، ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانا اور مطعون کرنا غیراسلامی بھی ہے اور غیر انسانی بھی، کیونکہ یقینی علم سے ایک کا درست اور دوسرے کا خطاء پر ہونا ثابت ہوتا ہے اور یقینی علم منصوصات سے حاصل ہوتا ہے اس کے برعکس جو علم حاصل ہوتا ہے وہ ظنّی و تخمینی ہوتا ہے، اس لئے وہ حتمی اور یقینی نہیں ہوتا البتہ فروعات میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ایک کا اجتہاد خطا کے احتمال کے ساتھ اقرب الی الحق ہو ، اور دوسرے کا رجحان خطا پر اس احتمال کے ساتھ مانا جاسکتا ہے کہ اس میں درستگی و صواب بھی ممکن ہے۔
فروعی مسائل میں بحث و مباحثہ اور رد و قدح تو اصلاً عام انسانوں کا میدان تو ہے ہی نہیںجس میں وہ اپنی لیاقت کے جواہر دکھائیں البتہ وہ علماء محقیقین جو علوم اسلامیہ میں کمال درجہ کا رسوخ رکھتے ہیں اور جو درجہ اجتہاد پر فائز ہیں یہ ان کا کام ہے اور ان کے لئے اس میں کلام کرنا روا ہے۔ لیکن افسوس کم علمی و جہالت نے ان مسائل میں اب وہ گل کھلائے ہیں عوام تو عوام کچھ عوامی سطح سے اونچے درجے کے معلومات رکھنے والے بھی اس میدانِ کار زار میں سرگرم عمل ہیں اور قیل و قال کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں، انسانی بستیاں جس کی وجہ اکھاڑے میں تبدیل ہو گئی ہیں، اسلام کے منصوص اعتقادات و احکام سے غفلت و بے توجہی تو ٹھنڈے پیٹ گوارہ کر لی جاتی ہے فرائض و احکام سے بے اعتنائی ، سنتوں کی پامالی کسی کو خون کے آنسو نہیں رلاتی ایسی کتنے خاندان ہیں جہاں صرف ان فروعی مسائل میں سرپھٹول ہے اور جنگ و جدال کی نوبت ہے ، ان فروعی مسائل میں الجھائو نے خاندان بکھیر دئے ہیں، انتشار و افتراق کی کچھ ایسی آندھی چل پڑی ہے کہ جس سے بھائی بھائی کا دشمن ہے حالانکہ ناراضگی تو بنیادی اصول و احکام و مسائل میں کوتاہی و لا پرواہی کی بنیاد پر ہونی چاہیئے تھی، نہ کہ فروعی مسائل میں حدیث پاک کی رو سے اللہ کے لئے محبت اور اللہ کے لئے عداوت تو کمال ایمان کی دلیل ہے من احب للہ و ابغض للہ فقد استکمل الایمان۔
فروعی احکام و مسائل میں تشتت و افتراق اور اس بنیاد پر کسی سے ناراضگی تو دراصل نور ایمانی میں نقص کا سبب ہے پھر اس میں اختلاف ’’ چہ معنی دارد‘‘ ان مسائل کے اختلاف نے نہ تو صحابہ و تابعین کو راہ حق سے ہٹایا اور نہ تبع تابعین، محدثین، ائمہ مجتہدین کو نہ اختلاف و انتشار کا شکار بنایا ہے نہ راہ حق سے ہٹایا ہے ، ان کے ہاں تو ہزاروں مسائل میں علمی و فکری اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام ملتا ہے اور اس اختلاف نے مسائل کو سمجھنے میں توسع کی گنجائش پیدا کی ہے جس کی وجہ عمل میں سہولت میسر ہے، اسلامی احکام کی یہی وہ لچک ہے جو ہر زمانہ اور ہر دور میں پیش آمدہ مسائل کے حل کی راہ فراہم کرتی ہے۔
موجودہ سیاسی منظر نامہ کی تبدیلی کے بعد تو مسلمانوں کو اپنے سارے مسلکی اختلافات کو بھول کر کلمہ کی بنیاد پر متحد و متفق ہو جانے کی ضرورت ہے، ساری دنیا جب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحد ہو سکتی ہے تو پھر ہمارے درمیان اتحاد و اتفاق کیلئے کونسی چیز مانع ہو سکتی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے جس کو علامہ اقبال رحمہ اللہ نے بڑے بلیغ پیرائے میں بیان فرمایا ہے،
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلماں بھی ایک