ضمیر ارض میں یہ فرقہ پرستی کا زہر
بنے گا پیڑ تو دے گا ہوا بھی زہریلی
فرقہ پرستی کا زہر پھیلانے کی سازش
مرکز میں بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ملک میں فرقہ وارنہ کشیدگی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ملک کی کسی نہ کسی ریاست کے کسی نہ کسی شہر میں ایسے واقعات پیش آنے شروع ہوگئے ہیں جن کے نتیجہ میں بی جے پی کو امید ہے کہ وہ ہندو ووٹوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہوگی اور اسے ملک کی چار ریاستوں میں عنقریب ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرپائیگی۔ نریندر مودی حکومت کے قیام کو تین ماہ کا عرصہ ہونے کو آیا ہے اور ان تین ماہ میں اس کی کارکردگی عوام کیلئے توقعات کے مطابق نہیں کہی جاسکتی۔ نہ مہنگائی پر قابو پایا جاسکا ہے اور نہ عوام کو دوسرے مسائل سے راحت دلانے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ اب تک بی جے پی صرف اقتدار پر فائز ہونے کے نشہ میں ہی مست ہے اور اسکے قائدین اور وزرا ‘ عہدیدار وغیرہ اب اپنے عزائم کی تکمیل میں جٹ گئے ہیں۔ سب سے پہلے کشمیر کو خصوصی موقف دینے والے دستور ہند کے دفعہ 370 کو حذف کرنے کی بات کی گئی۔ پھر کشمیر کے مسئلہ سے جس طرح نمٹا جارہا ہے وہ بھی سارے ملک کے سامنے ہے۔ مہاراشٹرا کے شہر پونے میں ایک نوجوان آئی ٹی پروفیشنل کا محض ہٹ دھرمی کے انداز میں قتل کردیا گیا۔ اتر پردیش میںکسی نہ کسی شہر میں وقفہ وقفہ سے فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلائی جا رہی ہے۔ عصمت ریزی کے واقعات کو سماجی مسئلہ قرار دینے کی بجائے فرقہ وارانہ رنگ دیا جارہا ہے۔ اب ملزمین کی شناخت ان کے مذہب کی بنیاد پر کی جانے لگی ہے جبکہ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ اب لو جہاد کا مسئلہ پیش کرتے ہوئے ایک نیا ہوا کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ فرقہ واریت کو فروغ دینے کے مقصد سے کیا جارہا ہے۔ مختلف گوشوں سے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی بات کہی گئی تھی تو آر ایس ایس سربراہ نے تو ہندوستان میں رہنے والے تمام باشندوں کو ہندو قرار دیدیا۔ یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ ایک منظم اور سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ کا حصہ ہے۔ ایک منصوبہ کو عملی شکل دینے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں اور ملک میں فرقہ پرست تنظیموں اور اداروں کو مودی حکومت میں مکمل چھوٹ ملنے کا احساس ہونے لگا ہے۔ جس طرح چند برس قبل کیرالا جیسی ریاست میں لو جہاد کا ہوا کھڑا کرتے ہوئے بی جے پی نے اپنے قدم جمانے کی کوشش کی تھی اب وہی کوشش اتر پردیش میں شروع کی گئی ہے۔ اتر پردیش میں بی جے پی کی ریاستی یونٹ کے اجلاس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلم نوجوان بڑے پیمانے پر غیر مسلم لڑکیوں کو اپنی محبت کے جھانسے میں پھانس کر انہیں تبدیلی مذہب اور پھر شادی پر اکسا رہے ہیں۔ حقیقت ایسی کچھ نہیں ہے بلکہ یہ بی جے پی کی جانب سے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی ایک سازش ہے تاکہ اسے عوام کو بھڑکاتے ہوئے اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کا موقع مل سکے۔ ملک کی چار ریاستوں میں بہت جلد انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جے پی چاہتی ہے کہ عوام انہیں درپیش سنگین اور اہمیت کے حامل مسائل پر غور و فکر کرنے کی بجائے فرقہ واریت کے زہر کا شکار ہوجائے اسی لئے نت نئے بیانات دئے جا رہے ہیں اور عوام کی توجہ اصل اور اہم مسائل سے ہٹائی جا رہی ہے۔ اتر پردیش میں بی جے پی اپنے اقتدار کی واپسی چاہتی ہے اور اسی مقصد سے وہاں حالات کو بگاڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جا رہا ہے۔ یو پی حکومت کی جانب سے حالات کو بہتر بنانے کی اپنے طور پر جو کچھ بھی کوششیں ہو رہی ہیں ان کو بی جے پی کی کوششوں سے ناکام کیا جا رہا ہے۔ پہلے مظفر نگر میں فسادات بھڑکائے گئے۔ ان میں بی جے پی کے ارکان اسمبلی بھی ماخوذ ہیں۔ اسی طرح سہارنپور میں بھی حالات کو بگاڑ کر ان کا سیاسی استحصال کیا جارہا ہے۔ ان سب کا مقصد صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ حالانکہ وزیر داخلہ اور دوسرے حکومتی کارندے یہ بیانات دیتے جارہے ہیں کہ حکومت سبھی طبقات کے ساتھ یکساں سلوک کریگی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثرکرنے کی کوششوں کو برداشت نہیں کیا جائیگا لیکن ہندو فرقہ پرستوں کی جانب سے حالات کو بگاڑنے اور اس کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جارہی ہے لیکن اس تعلق سے حکومت نے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں اور ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے بی جے پی یا دوسری دوسری جماعتوں کو ترقیاتی منصوبے اور عزائم پیش کرنے چاہئیں ان کے سامنے ایک منشور اور ایجنڈہ پیش کرنا چاہئے اس کی بجائے مرکز میں برسر اقتدار رہنے کے باوجود بی جے پی کوئی منصوبہ یا ایجنڈہ پیش کرنے کی بجائے فرقہ واریت کو فروغ دے کر فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کی یہ کوشش انتہائی مذموم اور قابل مذمت ہے۔