فرقہ پرستی اور وزیر اعظم کا بیان

یہ تو چہرہ کا فقط عکس ہے تصویر نہیں
اس پہ کچھ رنگ ابھی اور چڑھاتے رہیئے
فرقہ پرستی اور وزیر اعظم کا بیان
فرقہ پرستی کے تعلق سے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بار پھر اپنے اور اپنی حکومت کے موقف کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت فرقہ پرستی کی تائید نہیں کرتی اور حکومت کیلئے ہندوستان سب سے اولین ترجیح ہے اور دستور ہند کو ایک مقدس کتاب مانا جاتا ہے ۔ نریندر مودی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت مذہبی عدم رواداری کو برداشت نہیں کریگی ۔ یہ دوسری مرتبہ ہے جب وزیر اعظم نے فرقہ پرستی کے تعلق سے اس طرح کی بیان بازی کی ہے ۔ اس سے قبل جب صدر امریکہ بارک اوباما نے ہندوستان کے دورہ سے واپسی کے بعد کہا تھا کہ آج ہندوستان جس طرح سے مذہبی عدم رواداری کا ماحول ہے اگر گاندھی جی زندہ ہوتے تو وہ سکتہ میں آجاتے ۔ اوباما کے اس بیان کے بعد مودی نے دہلی میں چرچ پر حملہ کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ فرقہ واریت کی ملک کے سماج میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ وزیر اعظم کے بیانات اپنی جگہ لیکن اندرون ملک حالات انتہائی خراب ہوتے جا رہے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ فرقہ پرست طاقتیں ملک کے ماحول کو ابتر کرتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں۔ کبھی دستور ہند سے سکیولرازم اور سوشلزم جیسے الفاظ کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو خود نریندر مودی کی کابینہ کے وزرا اس خیال پر مباحث کروانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے ان فرقہ پرستوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ کبھی دفتر وزیر اعظم کے وزیر کی جانب سے بیان دیا جاتا ہے کہ ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ کیا جانا چاہئے اور کشمیر کو خصوصی موقف دینے والے دستور ہند کے دفعہ 370 کو حذف کیا جانا چاہئے ۔ ایک طرف نریندر مودی دستور ہند کو ایک مقدس دستاویز ماننے کا اعلان کرتے ہیں تو ان کے وزرا اس میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں اور ایک وزیر خارجہ تو بھگود گیتا کو قومی کتاب کا درجہ دینے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ان مسائل پر وزیر اعظم نے تو خاموشی اختیار کرنے کو ہی ایک بہتر راستہ سمجھ لیا تھا لیکن جب اس کے اثرات بین الاقوامی سطح پر ان کی حکومت پر اثر انداز ہونے لگے تو وہ طوعا و کرعا اس طرح کے بیانات جاری کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ وہ صرف بیان بازیوں پر اکتفا کرر ہے ہیں اور کسی طرح کی عملی کارروائی کا ابھی تک کوئی اشارہ نہیں دیا گیا ہے ۔
گھر واپسی کے مسئلہ پر ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی گئی اور غربت و افلاس کا شکار مسلمانوں اور عیسائیوں کو سماجی سطح پر بہتر زندگی فراہم کرنے کے اقدامات کرنے کی بجائے انہیں لالچ دے کر یا پھر ڈرا دھمکا کر ان کا مذہب تبدیل کروایا گیا ۔ انتخابات سے قبل لو جہاد کا مسئلہ اٹھاکر سماج میں نفرت پیدا کی گئی ۔ کسی گوشے سے یہ بیان دیا جاتا تھا کہ آئندہ چند برسوں میں اس ملک میں مسلمانوں اور عیسائیوں کا خاتمہ ہوجائیگا ۔ آر ایس ایس یہ بیان دیتی ہے کہ ہندوستان اب ہندو راشٹر بن چکا ہے ۔ کیا آر ایس ایس ملک کے دستور سے بالاتر ہے جو اسطرح کا بیان دیتی ہے ۔ اور اگر وزیر اعظم مودی واقعی دستور ہند کو مقدس دستاویز مانتے ہیں تو پھر انہوں نے آر ایس ایس کے خلاف کسی طرح کی کاررو ائی کیوں نہیں کی ؟ ۔ ملک سے مسلمانوں اور عیسائیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے ہندو راشٹر بنانے کا اعلان کرنے والی تنظیم کے خلاف کچھ بھی کیوں نہیں کیا گیا ؟ ۔ دہلی اور اطراف کے علاقوں میں عیسائیوں کی عبادتگاہوں میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے ماحول خراب کیا گیا ۔ کیا یہ سب کچھ کارروائیاں ایسی ہیں جنہیں معمول کے واقعات قرار دیتے ہوئے خاموشی اختیار کی جاسکے ؟ ۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ وزیر اعظم ایک بیان دیں اور ان کی ساتھی تنظمیں اور حد تو یہ ہوگئی کہ خود ان کے وزرا وزیر اعظم سے مختلف موقف اختیار کریںا ور اس کا کھلے عام اعلان بھی کرتے پھریں ؟ ۔ وزیر اعظم کیوں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے ؟ ۔
سابقہ یو پی اے حکومت میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کو کٹھ پتلی وزیر اعظم کہا جاتا تھا اور حساس مسائل پر ان کی خاموشی کو نشانہ بنایا جاتا تھا ۔ اب وزیر اعظم مودی ہیں اور وہ بھی کئی مسائل پر خاموش اختیار کئے ہوئے ہیں اور کبھی کچھ اظہار خیال کرتے بھی ہیں تو وہ صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہے ۔ کیا وہ اتنے مجبور ہیں کہ اپنے ہی الفاظ پر عمل آوری کو یقینی بنانا ان کے بس میں نہیں ہے ؟ ۔ وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ ہندوستان میں ہمہ جہتی سماج کی انفرادیت کو متاثر کرتے ہوئے فرقہ واریت کا زہر گھولنے والوں اور سماج میں نفرت کو فروغ دینے والوں کے خلاف لگام کسنے کیلئے اپنے آپ میں ہمت پیدا کریں۔ انہیں یہ حقیقت سمجھ لینی چاہئے کہ صرف زبانی جمع خرچ سے کچھ ہونے والا نہیں ہے اور جب تک وہ اپنے بیانات کو اپنے افعال سے مربوط نہیں کرینگے اس وقت تک ملک میں حالات کو ابتر کرنے والی فرقہ پرست اور فاشسٹ طاقتوں پر لگام کسنا آسان نہیں ہوگا اور حالات ابتر ہوجاتے ہیں تو اس کی ذمہ داری راست وزیر اعظم اور ان کی حکومت پر عائد ہوگی۔