فرقہ پرستوں کے عزائم

ہیں فرقہ پرستوں کے خطرناک عزائم
اور اس کے مقابل ہے یہ بکھری ہوئی طاقت
فرقہ پرستوں کے عزائم
ہندوستان میںجہاں ہمہ مذاہب کے ماننے والے اور کئی زبانیں بولنے والے رہتے بستے ہیں اب بتدریج فرقہ پرستوں کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کے عزائم بھی دھیرے دھیرے آشکار ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ مرکز میں نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت کے اقتدار پر آنے کے بعد سے ہونے لگا ہے۔ ویسے تو فرقہ پرستوںنے ایک حکمت عملی بہت پہلے ہی تیار کر رکھی تھی جس کے بموجب ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا ‘ یکساں سیول کوڈ نافذ کرنا جیسے مقاصد کی تکمیل ضروری تھی تاہم یہ فرقہ پرست تنظیمیں‘ ادارے اور افراد اپنے عزائم کو پوشیدہ رکھے ہوئے تھے اور کھلے عام ان کے اظہار سے گریز کیا جاتا تھا ۔ وقتا فوقتا کسی گوشے کی جانب سے اپنے عزائم کا اظہار بھی ہوتا رہا ہے تاہم جب سے نریند رمودی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے اس وقت سے فرقہ پرست تنظیموںاورا داروںکی جانب سے اپنے عزائم و مقاصد کا کھلے عام اظہار ہو رہاہے اور ان مقاصد وعزائم میںدستور ہند کی سنگین خلاف ورزیاںبھی شامل ہیں۔عملا یہ دکھائی دے رہا ہے کہ آر ایس ایس کے ہاتھ میںملک کی باگ ڈور آگئی ہے ۔ حکومت ہر کام آر ایس ایس کی مرضی اور اس کے مشوروں سے کرنے کی عادی ہوگئی ہے ۔ یہ پارلیمنٹ اجلاس میں طئے پانے والا ایجنڈہ ہو یا کہ ملک کی تعلیمی پالیسی ہو ‘ سیاسی جماعتوں سے اتحاد ہو یا پھر اپوزیشن کو گھیرنے کی حکمت عملی ہو سبھی کچھ آر ایس ایس کی مرضی اور اس کے مشوروں سے ہو رہاہے ۔ یہ حکمرانی کے اصولوںکے مغائر ہے ۔ جس وقت یو پی اے حکومت تھی اس وقت بی جے پی کی جانب سے بارہا الزام عائد کیا جاتا تھاکہ وزیر اعظم کا ریموٹ کنٹرول سونیا اور راہول گاندھی کے ہاتھ میں ہے ۔ یہ دونوں کانگریس قائدین سیاسی شخصیت کے حامل ہیںلیکن اب وزیر اعظم نریندر مودی ہیںاور ان کا ریموٹ کنٹرول آر ایس ایس کے ہاتھ میںآگیا ہے۔ساری حکومت دہلی کی بجائے ناگپور میں آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹرس سے چل رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرستوں نے اپنے عزائم کی تکمیل کے منصوبوںکااعلان کرنا بھی شروع کردیا ہے۔تازہ ترین مثال وی ایچ پی کے لیڈر اشوک سنگھل کی ہے جنہوںنے یہ اعلان کردیا ہے کہ 2020 تک ملک کو ہندو راشٹر بنادیا جائیگا۔
ویسے تواشوک سنگھل کی عادت رہی ہے کہ وہ وقفہ وقفہ سے اپنی بکواس اور زہر افشانی کے ذریعہ اپنے وجودکااحساس دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ تاہم سنگھل ایسے پہلے فرد اور وی ایچ پی ایسی پہلی تنظیم نہیںہے جس نے ایسے عزائم کا اظہار کیاہے ۔ اس سے قبل کسی غیر معروف تنظیم کے سربراہ نے اعلان کیا تھا کہ چند برسوںمیں ہندوستان کو مسلمانوں کے وجودسے پاک کردیا جائیگا ۔ کسی گوشے سے مسلمانوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان منتقل ہوجائیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ یوگا حب الوطنی کی دلیل ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ گائے کا گوشت کھانا ملک کی روایات کے مغائر ہے ۔ کوئی مرکزی وزیرکہتی ہیں کہ بی جے پی کو ووٹ نہ دینے والے حرام زادے ہیں۔ ایک اور مرکزی وزیر چاہتی ہیںکہ بھگودگیتا کو قومی کتاب قرار دیا جانا چاہئے ۔خود وزیر اعظم جب کبھی بیرونی ممالک کے دوروں پر جاتے ہیں وہ وہاں کے سربراہان کوبھگو دگیتا کا تحفہ پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک گوشہ دبے کچلے اور حالات کی مار سہنے والے مسلمانوں کو لالچ دے کر یا دھمکا کر گھر واپسی کا پروگرام منعقدکرتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہو رہا ہے اور اس کا مقصدملک کی اقلیتوںاور خاص طور پر مسلمانوںکو ذہنی طور پر ہراساں کرنا اور ان کے حوصلے پست کرنا ہے ۔اس ساری مہم کامقصد یہی ہے کہ مسلمانوں میں خود یہ احساس پیدا کیاجائے کہ وہ اس ملک میںدوسرے درجہ کے شہری ہیں اور انہیںاسی احساس کے ساتھ یہاںزندگی گذارنی چاہئے۔ فرقہ پرست تنظیمیں ہوںیاپھر خودحکومت ہوانہیںیہ سمجھ لیناچاہئے کہ مسلمانوںمیںیہ احساس کبھی پیدانہیںہوسکتا۔
ملک کے دستور میں یہ بالکل واضح کردیا گیا ہے کہ ہندوستان ایک سکیولر ملک ہے اور یہاں تمام مذاہب کے ماننے والوںکے حقوق مساوی ہیں۔ کسی مذہب کے ماننے والے کودوسرے مذاہب کے ماننے والوںپر برتری حاصل نہیں ہے۔ اس کے باوجود یہ اعلان کرنا کہ آئندہ چند برسوںمیںملک کو ہندو راشٹر بنادیا جائیگا دستور ہندکامذاق اڑانے اور اس کی سنگین خلاف ورزی کے مترادف ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے اعلانات اور ایسی خلاف ورزیاںحکومت کے نمائندوں کی موجودگی میںہوتی ہیںاور وہ خاموش تماشائی بنے بیٹھتے ہیں۔حکومت کو اس معاملہ میں اپنا موقف واضح کرنے کی ضرورت ہے۔حکومت کویہ واضح کرنا چاہئے کہ ہندوستان ایک سکیولر ملک ہے اور دستور میںتمام مذاہب کے ماننے والوںکو جو مساویانہ حقوق دئے گئے ہیں ان کو ختم کرنے یا ان میں تبدیلی یا انکی خلاف ورزی کاکسی کو کوئی استحقاق حاصل نہیںہے ۔