فرقہ پرستوں کے خطرناک عزائم

اب اک قدم اٹھانا بھی دشوار سا لگے
رہبر بدل گئے ہیں کہ رستے بدل گئے؟
فرقہ پرستوں کے خطرناک عزائم
مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی ہندوستان کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگنے کی کوششیں پوری شدت کے ساتھ شروع ہوگئی ہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ کو فرقہ پرستی کے ذریعہ مخصوص رنگ میں ڈھالنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ تعلیم کو زعفرانی رنگ دیا جا رہا ہے ۔ سماجی سطح پر ہندوتوا کو عام کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ بھگود گیتا کو قومی کتاب قرار دینے کا مطالبہ ہو رہا ہے ۔ بی جے پی کو ووٹ نہ دینے والوں کو گالی دی جا رہی ہے ۔ یہ سب کچھ فرقہ پرستوں کے خطرناک عزائم کا حصہ ہے اور وہ مودی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے ابتدائی ایام ہی میں یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اب چونکہ بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوگئی ہے اس لئے وہ اکثریت کے دم پر ملک میں دوسرے فرقوں اور خاص طور پر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنا چاہتے ہیں۔ کھلے عام مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور انہیں دوسرے درجہ کے شہری ہونے کا احساس دلایا جا رہا ہے ۔ یہ تاثر عام کیا جارہا ہے کہ انہیں اس ملک میں مساوی حقوق نہیں مل سکتے اور انہیں اکثریت کے رحم و کرم پر اور اس کے اشاروں پر ہی زندگی گذارنی ہوگی ۔ اب مسلمانوں کو مذہب کے معاملہ میں بھی آزادانہ حقوق سے محروم کیا جارہا ہے اور انہیں ڈرا دھمکا کر یا پھر لالچ کے ذریعہ سے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ یہ سب کچھ ڈھکے چھپے انداز میں ہوا کرتا تھا لیکن اب دھڑلے سے اور علی الاعلان مسلمانوں کو ان کے مذہب سے دور کیا جارہا ہے اور یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ ان کا شدھی کرن ہو رہا ہے ۔ یہ ایسی کوشش ہے جو ملک کے دستوری ضوابط اور قوانین کے یکسر مغائر ہے کیونکہ دستور ہند میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو مساوی حقوق دئے گئے ہیں اور ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی فراہم کی گئی ہے ۔ جبرا تبدیلی مذہب کے ذریعہ دستور ہند کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور یہ مطالبہ بھی دستور ہند کی ہتک کرنے کے برابر ہے کہ بھگود گیتا کو قومی کتاب قرار دیا جائے ۔ کسی جمہوری ملک میں مذہبی کتب کو قومی کتاب قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ کسی ایک مذہب کی کتاب کو دوسرے مذاہب پر مسلط کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے باوجود ایسا ہو رہا ہے ۔
آگرہ میں مسلمانوں کو ہندو ازم میں داخل کرنے کی کھلے عام تقریب منعقد ہوئی اور آئندہ ایام میں بھی ایسا کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے ۔ دستور ہند کی اس سے زیادہ واضح انداز میں مخالفت نہیں ہوسکتی لیکن حکومت کی سطح پر ایسا کرنے والوں کے خلاف کچھ بھی کرنے سے گریز کیا جارہا ہے اور جہاں تک مرکزی حکومت کا معاملہ ہے یہ شبہ غلط نہیں ہوسکتا کہ وہ ایسا کرنے والوں کی در پردہ یا بالواسطہ طور پر مدد کر رہی ہے ۔ یہ شبہ اس لئے تقویت پاتا ہے کہ خود برسر اقتدار جماعت بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ ایسی تقاریب میں شرکت کا اعلان کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو جبرا مذہب تبدیل کروانے والوں کی حمایت کی جا رہی ہے ۔ آگرہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دستور کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اس پر نہ صرف حکومت کو بلکہ سماج کے دیگر اصول پسند گروپس اور طبقات کو بھی کھل کر سامنے آنے اور اس کی مخالفت کرنے کی ضرورت ہے ۔ بھگوا تنظیمیں پہلے تو عیسائی مشنریز کی جانب سے دلتوں کا مذہب تبدیل کروانے پر احتجاج اور اعتراض کرتی رہی ہیں لیکن اب وہی مسلمانوں کے معاملہ میں یہی رویہ اختیار کر رہی ہیں اور انہیں روکنے کی کسی گوشے سے کوشش نہیں ہو رہی ہے ۔ بھگوا تنظیمیں ایسا لگتا ہے کہ ملک کے سکیولر ڈھانچہ کو ہی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور وہ سماج میں مذہب کے نام پر نفاق اور تقسیم کو عام کرتے ہوئے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں ۔ انہیں ایسی کوششوں سے روکنا ضروری ہے ۔
ملک کے وزیر اعظم اور و۔زیر داخلہ کی جانب سے حالانکہ بارہا یہ زبانی دعوے کئے جا رہے ہیں کہ ملک میں سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو مساوی حقوق دئے جائیں گے اور کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جائیگا ۔ انہیں یہ جواب دینا چاہئے کہ اگر مسلمان یا عیسائی مشنریز کی جانب سے باضابطہ تقریب منعقد کرکے کھلے عام سینکڑوں افراد کو مشرف بہ اسلام کیا جاتا ہے یا عیسائی بنایا جاتا ہے تو کیا حکومت تب بھی خاموشی اختیار کریگی ؟ ۔ ایسا نہیں ہوسکتا تو پھر مسلمانوں کو جبرا مذہب تبدیل کروانے پر حکومت کی خاموشی کیا معنی رکھتی ہے ؟ ۔ حکومت کی خاموشی سے یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ در پردہ ایسی کوششوں کی تائید کر رہی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ۔ مرکزی حکومت کو اس سنگین مسئلہ پر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے دستور کی خلاف ورزی روکنے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔