فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے پر ملک کی تقسیم کا خطرہ

لکھنؤ 28 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) جمعیت العلماء ہند نے آر ایس ایس کو فاشسٹ تنظیم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ جمعیۃ کے اجلاس عام میں ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیاکہ بابری مسجد کی شہادت میں آر ایس ایس ملوث ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں پر ہر ایک شہری کو اپنی پسند کے مطابق مذہبی عقائد پر عمل کرنے کا حق ہے۔ لیکن بعض گوشوں کی جانب سے ملک کو قانون اور انصاف کی راہ سے ہٹادینے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ نراجیت اور فاشزم کو فروغ حاصل ہو۔ تاہم جمعیت العلماء ہند دیہاتوں اور ٹاؤنس میں اخوت اور بھائی چارگی کو مضبوط کرنے کیلئے بیداری مہم چلائے گی۔ اجلاس عام کو مخاطب کرتے ہوئے صدر مولانا ارشد مدنی نے الزام عائد کیاکہ دائیں بازو کی طاقتیں سیاسی مفادات کیلئے گھر واپسی کے نام پر منافرت پھیلارہے ہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ جو لوگ گھر واپسی اور تحفظ مذہب (دھرم رکھشنا) کے بارے میں نفرت انگیز مہم چلارہے ہیں وہ دراصل اپنے مذہب کی خود غلط تصویر پیش کررہے ہیں۔ اُنھوں نے وزیراعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ وہ فرقہ پرستوں کی نفرت انگیز مہم کے مسئلہ پر پارلیمنٹ میں جواب دینے سے قاصر ہیں۔ یہ ادعا کرتے ہوئے مادر وطن کی آزادی کیلئے دیگر برادریوں سے زیادہ مسلمانوں نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ مولانا ارشد مدنی نے انتباہ دیا کہ اگر فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی تو ہمارا ملک پھر ایک بار فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم ہوجائے گا۔

اجلاس میں یہ اپیل کی گئی کہ مسلمانوں میں پھیلی ہوئی بُرائیوں کا خاتمہ کیا جائے ورنہ دنیا کی کوئی طاقت انھیں عزت و احترام نہیں دلاسکتی۔ اجلاس میں انسداد فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق ایک اور قرارداد جمعیت العلماء نے حکومت اترپردیش کو یاد دہانی کروائی کہ اس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ جہاں کہیں بھی فسادات پیش آئیں گے وہاں کے انتظامیہ کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے تبادلہ کردیا جائے گا۔ تیسری قرارداد میں یہ شکایت کی گئی کہ سماج وادی پارٹی حکومت نے 18 فیصد مسلم تحفظات اور دہشت گردی کے الزام میں گرفتار بے قصور مسلمانوں کی رہائی کے وعدہ کی تکمیل نہیں کی۔ ہاشم پورہ اور قتل عام واقعہ پر عدالت کیے فیصلہ پر جمعیت العلماء نے کہاکہ حصول انصاف کیلئے قانونی لڑائی میں یہ متاثرہ خاندانوں کیلئے معاون ثابت ہوسکتا ہے اور راشن کارڈس پر خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے خواتین کی تصاویر ہٹادینے کی گزارش کی گئی ہے اور بتایا کہ شریعت میں اس کی اجازت نہیں ہے۔