محکمہ تعلیم کے 4 عہدیدار معطل ، رقم کی واپسی اور استفادہ کنندگان اگلا نشانہ، ذمہ داران میں کھلبلی
محمد مبشر الدین خرم
حیدرآباد۔4اکٹوبر۔ فرضی دینی مدارس کو سروا سکھشا ابھیان کے رقومات کی منتقلی میں اعانت کرنے والے محکمۂ تعلیم کے عہدیداروں کو معطل کر دیا گیا اور اور اس سلسلہ میں آج احکامات کی اجرائی عمل میں لائی جا چکی ہے۔ شہر حیدرآباد میں دینی مدارس کے نام پر کئے گئے تغلب کے متعلق انکشاف کے بعد شروع کی گئی کاروائی میں 4ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولس کی معطلی کے ساتھ کاروائی شروع ہو چکی ہے اور بہت جلد فرضی مدارس کی جانب سے وصول کئے گئے لاکھوں روپئے کی واپسی اور حکومت کو گمراہ کرتے ہوئے دولت بٹورنے والوں کے خلاف کاروائی بھی شروع کی جائے گی۔ ریجنل جوائنٹ ڈائریکٹر کی جانب سے جاری کردہ احکامات پر عمل آوری کرتے ہوئے ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر حیدرآباد مسٹر سومی ریڈی نے ڈی ۔ ایلیا ڈپٹی انسپکٹر آف اسکول بندلہ گوڑہ ‘ محمد رضوان اللہ ڈپٹی انسپکٹر آف اسکول آصف نگر‘ اندرجیت ڈپٹی انسپکٹر آف اسکول مشیر آباد‘ سرینواس چاری ڈپٹی انسپکٹر آف اسکول نامپلی کو فوری اثر کے ساتھ معطل کرنے کے احکام جاری کئے ہیں۔ سروا سکھشا ابھیان کی جانب سے دینی مدارس کو عصری تعلیم سے مربوط کرنے کیلئے کئے جانے والے اقدامات کے دی جانے والی امداد کی اجرائی میں فرضی حاضری کی تصدیق کرنے والے ان عہدیداروں کے خلاف کاروائی کا آغاز ہنے کے بعد ان فرضی مدارس کے ذمہ داروں میں کھلبلی پیدا ہو چکی ہے جو ان عہدیداروں سے ملی بھگت کے ذریعہ لاکھوں روپئے لوٹ چکے ہیں۔ ایس ایس اے کے عہدیداروں نے بتایا کہ فنڈز کے تغلب کے معاملہ میں تحقیقاتی رپورٹ حکومت کو حوالے کرتے ہوئے محکمہ ٔ تعلیم کے جن عہدیداروں کے خلاف کاروائی کی سفارش کی گئی تھی ان میں چند کے خلاف کاروائی کی جا چکی ہے لیکن اب بھی بعض عہدیداروں کو محکمہ کی جانب سے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان کوششوں کو سیاسی سرپرستی حاصل ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ دونوں شہروں میں چلائے جانے والے فرضی دینی مدارس کے نام پر وصول کی جانے والی رقومات کے تغلب کے سلسلہ میں تیار کردہ رپورٹ میں جو انکشافات منظر عام پر ٓائے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر میں دینی مدارس کے نام پر جو دولت لوٹی جا رہی ہے اس سے قوم و ملت کے نونہالوں کا مستقبل تو نہیں بلکہ خاندانوں کی مالی حالت مستحکم ہونے لگی ہے۔ سرواسکھشا ابھیان کی رپورٹ کے مطابق جن فرضی مدارس کی نشاندہی عمل میں لائی جا چکی ہے انہیں ان عہدیداروں کی تصدیق کی بنیاد پر رقومات کی اجرائی عمل میں لائی گئی تھی لیکن ان رقومات کی اجرائی کے بعد بھی جاری رہنے والی تحقیق کے دوران مزید فرضی دینی مدارس اور ایسے مدارس کا انکشاف ہوا جن میں طلبہ و طالبات کی تعداد کم ہے لیکن اس کے باجود اضافی تعداد درج کرواتے ہوئے ودیا والینٹرس کی تنخواہیں وصول کی گئی ہیں ۔ کئی دینی مدارس کے نام پر وصول کی جانے والی تنخواہوں کے استفادہ کنندگان میں ناظم کے طور پر موجود شخص کے رشتہ دار ہیں ۔ اسی طرح پرانے شہر میں ایک مدرسہ کے ذمہ دار کی حیثیت سے تنخواہ وصول کر رہے شخص کے تمام اہل خانہ بشمول اہلیہ و دختران کے علاوہ داماد بحیثیت ودیا والینٹرس خدمات انجام دیتے ہوئے تنخواہ حاصل کر رہے ہیں اور بنیادی طور پر مذکورہ پتہ پر کوئی مدرسہ خدمات انجام نہیں دے رہا ہے۔ اسی طرح ایک اور دینی مدرسہ میں بھانجوں کے ناموں کا اندراج بحیثیت ودیا والینٹرس کروایاگیا ہے اور جو تعداد طلبہ کی دکھائی گئی ہے اس کی نصف تعداد بھی مدرسہ میں موجود نہیں ہے۔ سروا سکھشا ابھیان کے مجاز عہدیداران نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے سخت ہدایت کے بعد شروع کی گئی اس کاروائی کے دوران ان تمام فرضی دینی مدارس کے خلاف کاروائی یقینی بنائی جائے گی جنہوں نے حکومت کو دھوکہ دیتے ہوئے رقومات وصول کی ہیں اور ان کے خلاف کاروائی کو بھی یقینی بنایا جائے گا جن عہدیداروں نے ان کی اس کارستانی میں مدد کی ہے۔