فرضی انکاؤنٹر کے خلاف چلو اسمبلی احتجاج کو ناکام بنانے طاقت کا استعمال

سینکڑوں افراد کی گرفتاریاں، احتجاجیوں کو اسمبلی کی سمت بڑھنے سے روک دیا گیا
حیدرآباد ۔ /30 ستمبر (سیاست نیوز) ریاست تلنگانہ میں فرضی انکاؤنٹرس کے خلاف سماجی اور  عوامی تنظیموں کی جانب سے بائیں بازو جماعتوں کی قیادت میں چلو اسمبلی پروگرام کو پولیس نے آج ناکام بناتے ہوئے سینکڑوں افراد کی اندھادھند گرفتاریاں عمل میں لائی ۔ پولیس کی اس کارروائی کے بعد شہر میںماحول کشیدہ ہوگیا اور پولیس نے احتجاجیوں کو اسمبلی کی سمت بڑھنے سے روک دیا ۔ ضلع ورنگل میں سی پی آئی ماؤسٹ کے دو مبینہ ارکان شروتی اور ودیا ساگر اور آلیر میں 5 مسلم زیر دریافت قیدیوں وقار احمد اور اس کے چار ساتھیوں کو فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کرنے کے خلاف 400 سماجی ، عوامی اور بائیں بازو کی جماعتیں متحد ہوتے ہوئے حکومت کی اس کارروائی کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔اس احتجاج کو تلنگانہ ڈیموکریٹک فورم کے بیانر کے تلے چلو اسمبلی پروگرام کا اعلان کیا تھا اور پولیس نے اس پروگرام کی اجازت دینے سے انکار کردیاتھا ۔ حیدرآباد و سائبر آباد پولیس کل رات سے ہی چوکسی اختیار کرتے ہوئے شہر کے تمام داخلے کے مقامات کی ناکہ بندی کردی گئی تھی تاکہ احتجاجیوں کو اضلاع سے شہر میں داخل ہونے سے روکا جاسکے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں رات دیر گئے ٹاسک فورس عملہ نے ہاسٹل پر دھاوا کرتے ہوئے مختلف طلباء تنظیموں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو حراست میں لے لیا ۔

چلو اسمبلی پروگرام کے پیش نظر حیدرآباد سٹی پولیس نے اسمبلی کے اطراف و اکناف کے علاقوں میں سکیورٹی کے وسیع ترین انتظامات کئے تھے ۔ پولیس نے آج صبح سے ہی مختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والے قائدین و کارکنوں کو احتیاطی گرفتاری کے تحت حراست میں لے لیا تھا ۔ اسمبلی کے روبرو گن پارک کے قریب اس وقت سنسنی پھیل گئی جب راجکمار نامی ایک نوجوان نے فرضی انکاؤنٹر کے خلاف منعقد ہونے والے چلو اسمبلی پروگرام کے تحت کی گئی اندھادھند گرفتاریوں کے خلاف خودسوزی کی کوشش  کی جسے پولیس نے ناکام بناتے ہوئے اسے فوری حراست میں لے لیا اور اس کے قبضے سے کیروسین اور دیگر اشیاء برآمد کرلیا۔

بڑے پیمانے پر احتجاج کے اعلان کے بعد پولیس نے سماجی او ر عوامی تنظیموں اور بائیں بازو گروپ کے قائدین پر کڑی نظررکھی تھی اور ان کی فوری گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ آر ٹی سی کراس روڈ پر انجمن انقلابی مصنفین کے صدر مسٹر ورا وراء راؤ کو حراست میں لے لیا گیا تھا جبکہ ماہرین تعلیم مسٹر پی ایل وشویشور راؤ ، جی ونود کمار کے علاوہ بائیں بازو جماعت کے سینئر قائدین چاڈا وینکٹ ریڈی ، تمینینی ویرابھدرم کو بھی احتیاطی گرفتاری کے تحت حراست میں لیکر انہیں مختلف مقامات کو منتقل کردیا ۔ پولیس نے شہر میں جگہ جگہ پر رکاوٹیں پیدا کردی تھیں اور مشتبہ افراد پر کڑی نظر رکھی جارہی تھی تاکہ کسی بھی احتجاجی کو اسمبلی کی سمت جانے سے روکا جاسکے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں بھی آج طلباء کی جانب سے چلو اسمبلی پروگرام کے تحت نکالے جانے والی ریالی کو ناکام بناتے ہوئے کئی طلباء کو پولیس نے گرفتار کرلیا ۔ پولیس نے یونیورسٹی کے تمام باب الداخلوں کو بند کردیا تھا ۔ اسی طرح سندرا وگیانا کیندرم باغ لنگم پلی پر اس وقت کشیدگی پیدا ہوگئی جب پولیس کی جانب سے اندھادھند گرفتاریوں کے خلاف بائیں بازو جماعتوں اور دیگر تنظیموں سے وابستہ ارکان نے راستہ روکو احتجاج کیا ۔ پولیس نے انہیں بھی حراست میں لیکر مختلف اسٹیشن منتقل کردیا ۔ چلو اسمبلی پروگرام کی اجازت کو منسوخ کرتے ہوئے سنٹرل زون پولیس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس پروگرام میں سی پی آئی ماؤسٹ تنظیم سے وابستہ ارکان شامل ہوسکتے ہیں اور ماؤسٹوں کی ایماء پر ہی یہ پروگرام کا انعقاد عمل میں لایا جارہا ہے ۔ چنانچہ پولیس نے اسمبلی کے دو کیلو میٹر کے فاصلے تک امتناعی احکامات نافذ کرتے ہوئے جلسے عام ، ریالی اور کسی بھی قسم کے احتجاج پر امتناع عائد کردیا تھا ۔  ضلع نلگنڈہ کے آلیر فرضی انکاؤنٹر کے خلاف احتجاج کیلئے باغ لنگم پلی روانہ ہونے والے صدر وحدت اسلامی مولانا محمد نصیرالدین کو ان کی رہائش گاہ واقع سعیدآباد سے گرفتار کرلیا تھا جبکہ مجلس بچاؤ تحریک کے سابقہ کارپوریٹر مسٹر امجد اللہ خان خالد کو ان کی رہائش گاہ  سے گرفتار کرلیا گیا جبکہ ساؤتھ زون پولیس نے صدر درسگاہ جہاد و شہادت مسٹر محمد ماجد کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس نے سیول سوسائیٹی اور مسلم تنظیموں سے وابستہ قائدین مولانا سید طارق قادری ، ثناء اللہ خان ، مجاہد ہاشمی ، سی پی آئی ایم گریٹر حیدرآباد قائد ایم سرینواس اور دیگر کو گرفتار کرتے ہوئے انہیں فلک نما پولیس اسٹیشن منتقل کیا ۔