پیرس ۔ یکم جولائی ( سیاست ڈاٹ کام ) یوروپین یونین کی حقوق انسانی عدالت نے آج فرانس کے اس متنازعہ قانون کو منظوری دیدی جس کے ذریعہ سے عام مقامات پر شہرے پر حجاب کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی تھی ۔ یہ خاتون حقوق انسانی عدالت میں یہ مقدمہ دائر کیا تھا جس کا کہنا تھا کہ اس قانون کے نتیجہ میں اس کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہوئی ہے ۔ اسٹراس برگ کی عدالت نے 2010 میں فرانس میں اس متنازعہ قانون کی منظوری کے بعد سے اپنی نوعیت کی پہلی رولنگ دی ہے ۔ فرانس میں منظورہ قانون کے مطابق کسی کو بھی عوامی مقامات بشمول گلیوں میں اپنے چہرے پر حجاب استعمال کرنے کی اجازت نہیں رہیگی ۔ اس قانون پر 2011 سے عمل آوری ہو رہی ہے ۔ 20 سال سے زائد عمر والی فرانسیسی قانون کے ادعا کو مسترد کرتے ہوئے عدالت کے گرانڈ چیمبر نے یہ رولنگ دی ہے ۔ اس خاتون کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے ۔ اس خاتون کا کہنا تھا کہ وہ اپنے چہرے پر ہر جگہ حجاب استعمال نہیں کرتی بلکہ جب وہ اپنے مذہبی مقامات پر ہوتی ہے تو اسے ایسا کرنا پڑتا ہے ۔ اس نے اپنی شکایت میں کہا تھا کہ کسی نے بھی بشمول اس کے شوہر نے بھی اسے اپنا چہرہ چھپانے پر مجبور نہیں کیا ہے ۔
خاص طور پر فرنچ حکام کا کہنا ہوتا ہے کہ خواتین کو ان کے رشتہ دار چہرہ چھپانے پر زور دیتے ہیں۔ عدالت نے اپنی رولنگ میں کہا کہ ہمہ جہتی آبادی میں ہم آہنگی کو فروغ دینے کے مقصد سے یہ قانون منظور کیا گیا ہے اور اس کے نتیجہ میں حقوق انسانی کے یوروپی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ۔ اس قانون کے ناقدین کا الزام ہے کہ اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اسلام کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ مغربی یوروپ میں فرانس وہ واحد ملک ہے جہاں مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے ۔ مسلمانوں کی کثیر آبادی کی وجہ سے یہ قانون یہاں حساس نوعیت کا کہا جاتا ہے ۔ اس قانون کے تحت اگر کوئی خاتون اپنا چہرہ چھپاتی ہے اور حجاب استعمال کرتی ہے تو اس پر 150 یوروز کا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے یا سٹیزن کلاس میں شرکت کرنا ہوتا ہے یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ ابتداء میں فرانسیسی حکام نے اس قانون کو سکیوریٹی امور سے جوڑنے کی کوشش کی تھی اور بعد میں اسے سماجی سطح پر ہم آہنگی سے مربوط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔