یوسف ریحان ، کاغذ نگر
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ، خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی‘‘۔ (سورۃ الانعام۔۱۵۱)
ایک مسلمان کے لئے جس طرح شراب، خون اور خنزیر کے گوشت کا استعمال حرام ہے، اسی طرح فحش باتیں کرنا اور گالی گلوج سے بات کرنا بھی حرام ہے، خواہ یہ حرکت کھلے مقام پر کی جائے یا بند کمرے میں۔ اللہ تعالی نے ایسی باتوں سے منع فرمایا ہے اور کراماً کاتبین ہر وہ بات اعمال نامہ میں لکھ لیتے ہیں، جو انسان اپنی زبان سے ادا کرتا ہے، خواہ وہ بات بلند آواز سے کی جائے یا آہستہ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’کیا انھوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور سرگوشیاں نہیں سنتے ہیں، ہم سب کچھ سن رہے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہے‘‘۔ (سورۃ الزخرف۔۱۰)
بہت سے لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر بات پر گالی بکتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں، جو اپنے دوستوں سے گفتگو کے دوران بے تکلفی کے ساتھ غیر شعوری طورپر گالیاں بکنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں، جو پیٹھ پیچھے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے لوگوں کو گالیوں سے نوازتے ہیں، جب کہ بعض افراد چھوٹی سی خصومت یا اَن بن کی وجہ سے اپنے مخالف کو ایسی ایسی گالیاں دیتے ہیں کہ سامنے والا اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے یا پھر اس پر غشی طاری ہو جاتی ہے۔ اس طرح فحش کلام کرنے والے اور گالیاں بکنے والوں کی اکثریت جاہل ہوتی ہے، یعنی وہ قرآن و حدیث کے احکام سے ناواقف ہیں۔ بعض ایسے لوگ بھی اس قسم کی حرکات میں ملوث ہیں، جو نماز، روزہ، زکوۃ اور دیگر فرائض پابندی سے ادا کرتے ہیں، تاہم انھیں یہ نہیں معلوم کہ اس طرح کی فحش کلامی کے سبب وہ قیامت کے دن مفلس ہوں گے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟‘‘۔ لوگوں نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! ہمارے یہاں مفلس اسے کہا جاتا ہے، جس کے پاس نہ درہم ہو اور نہ کچھ سامان‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ’’میری امت میں مفلس وہ ہے، جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوۃ (کے اجر کا بہت بڑا سرمایہ) لائے گا، اس کے باوجود اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی تھی، کسی پر زنا کی تہمت لگائی تھی، کسی کا مال کھایا تھا، کسی کو قتل کیا تھا، کسی کو مارا تھا، اس کی نیکیوں کا ثواب مظلوموں کو دیا جائے گا، یعنی اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی۔ اور اگر مظلوموں کے حقوق باقی رہے تو پھر ان کے گناہوں کو اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جائے گا اور اسے آگ میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔ (مسلم)
یقیناً فحش کلامی کرنے والوں کو جہنم کی آگ میں پھینکا جائے گا، الا یہ کہ وہ فحش کلامی سے توبہ کرکے ان تمام برائیوں کو چھوڑدیں، کیونکہ جنت وہ جگہ ہے جہاں نہ کوئی بیہودہ باتیں کرنے والا ہوگا اور نہ فحش کلامی کرنے والا۔ جنتیوں کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’وہاں وہ کوئی بیہودہ کلام یا گناہ کی بات نہیں سنیں گے، جو بھی بات ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی‘‘۔ (سورۃ الواقعہ۔۲۵،۲۶)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان امتیوں کو جنت کی ضمانت دی ہے، جو اپنے زبان کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنی زبان سے پاکیزہ کلمات ادا کرتے ہیں۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کرے، میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں‘‘۔ (بخاری)
اللہ تعالی ان اہل ایمان کے اعمال کو درست کرتا ہے، جو پاکیزہ کلمات ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو، اللہ تعالی تمہارے اعمال درست کردے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا‘‘۔ (سورۃ الاحزاب۔۷۰،۷۱)
انسان کی زبان اور شرمگاہ ہی اس کی جنت اور جہنم ہے۔ یہی وہ دو چیزیں ہیں، جو انسان کو یا تو جنت میں لے جانے والی ہیں یا جہنم میں۔ اگر یہ پاکیزہ ہوں تو جنت اور ناپاک ہوں تو جہنم۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک اور حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جنت اور جہنم تمہارے جوتے کے تسمہ سے بھی زیادہ تمہارے نزدیک ہے‘‘ (بخاری بروایت حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ) لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنی زبان کی حفاظت کرتے ہوئے صرف پاکیزہ کلمات کا استعمال کرے اور فحش کلامی کرنے والوں کی اصلاح کریں۔