فاطمہ رسول صدیقی: مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی واحد مسلم امیدوار

نئی دہلی ۔28نومبر (سیاست ڈاٹ کام انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں حکمراں جماعت بی جے پی نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں تمام 230 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں لیکن ان میں بھوپال کی ایک نشست پر سب کی نظر ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ یہ وہ واحد نشست ہے جہاں سے بی جے پی نے کسی مسلم امیدوار کو انتخابی میدان میں کھڑا کیا ہے۔فاطمہ رسول صدیقی شمالی بھوپال کی اسمبلی نشست سے بی جے پی کی امیدوار ہیں اور یہ نشست نہ صرف بی جے پی بلکہ اس کی امیدوار کے لیے بھی وقار کی لڑائی بن گئی ہے۔پارٹی کے لیے اس لیے کہ گذشتہ 15 سالوں تک برسر اقتدار میں رہنے کے باوجود بی جے پی کبھی یہاں سے جیت نہ سکی۔اور فاطمہ صدیقی کے لیے اس لیے کیونکہ اس سیٹ پر ان کے والد کامیابی کا پرچم لہرایا کرتے تھے۔ جاریہ سال ہونے والے انتخابات میں وہ اپنے والد کی شکست کا بھی بدلہ لینا چاہیں گی۔شیر بھوپال کہلانے والے رسول احمد صدیقی اس اسمبلی نشست سے کانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر دو بار ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے اور کانگریس کی حکومت میں وزیر بھی رہے تھے۔لیکن سنہ 1993 میں عارف عقیل کے ہاتھوں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس انتخاب کے 25 سال بعد بی جے پی نے عارف عقیل کو چیلنج دینے کے لیے رسول احمد صدیقی کی بیٹی فاطمہ رسول کو میدان میں اتارا ہے۔ یہ مقابلہ آسان نہیں ہے کیونکہ یہ نشست کانگریس کا گڑھ کہی جاتی ہے اور عارف مسلسل پانچ بار وہاں سے منتخب ہوئے ہیں۔فاطمہ کے والد کانگریس کی جانب سے چیف منسٹر کے عہدے کے مضبوط دعویدار سندھیا کے قریبی آدمی سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان کی بیٹی نے ہاتھ کا ساتھ چھوڑ کر کنول کے پھول کا سہارا کیوں لیا۔ یہی سوال بی جے پی کے لیے بھی ہے کہ اس نے اقلیتی برادری سے کسی دوسرے کو اپنا نمائندہ بنانے کے بجائے رسول احمد جیسے کانگریسی کی بیٹی کو کیوں منتخب کیا۔سیاست کی اس بساط کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے شمالی بھوپال کی نشست کو سمجھنا ضروری ہے۔ شمالی بھوپال کی اسمبلی نشست مسلمان اکثریتی والا علاقہ ہے۔ ایسے میں مسلم امیدوار کا میدان میں آنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن فاطمہ کا انتخاب حیرت انگیز ہے۔ حیرت انگیز اس لیے کہ بی جے پی میں شامل ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی انھیں امیدوار بنا دیا گیا۔تاہم فاطمہ اسے عجیب نہیں کہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ‘یہ سچ ہے کہ میں اس سے پہلے کسی بھی پارٹی میں نہیں تھی۔ یہ میری پہلی پارٹی ہے اور اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔ پارٹی نے یہ خیال کیا کہ میں جوان ہوں، میں کام کرنا چاہتی ہوں اس لیے مجھے اپنا امیدوار بنا دیا۔ایسے میں سوال یہ بھی ہے کہ کانگریس نے ان پر بھروسہ کیوں نہیں کیا۔فاطمہ کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ سیاست کی سمجھ ان میں ان کے والد سے آئی ہے اور وہ ایک کانگریسی تھے لیکن اب کانگریس کی وہ شکل و صورت نہیں رہی۔فاطمہ کہتی ہیں: ‘نہ اب وہ کانگریس رہی نہ ہی کانگریس کے وہ لوگ رہے۔ پرانا زمانہ مختلف تھا۔ اب کانگریس بہت بدل چکی ہے۔ لیکن وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان میں مجھے اپنے والد سے ملنے والی سیاسی سمجھ نظر آئی۔ اپنے تمام تر خطاب میں فاطمہ گنگا جمنی مشترکہ تہذیب کی بات کرتی ہیں۔ تاہم وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ہندو مسلم کے نام پر سیاستی فائدے حاصل کیے جاتے ہیں۔لیکن فاطمہ کے الفاظ ابہام بھی پیدا کرتے ہیں۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ وہ کانگریس میں جانا چاہتی تھیں لیکن کانگریس نے انھیں کوئی مثبت ردعمل نہیں دیا۔انہوںنے کہا: ‘میرے والد اس علاقے کے لیے جتنے اچھے کام کیے وہ اب بھی لوگوں کو یاد ہیں۔