فاتحہ اور اس کی حقیقت

مرسل : ابوزہیرنظامی

(۱) فاتحہ کا معنیٰ کھولنا اور کسی چیز کا آغاز و شروع ہے ۔ (چنانچہ قرآن شریف کی پہلی سورۃ کا نام فاتحہ ہے ) لیکن عرف عام میںقرآن شریف کی تلاوت یا اس کے چند سورتوں کا ثواب پہنچانے کو فاتحہ کہتے ہیں ‘ چونکہ اس (تلاوت) میں سورہ فاتحہ بھی ہوتی ہے اس لحاظ سے بھی اس کو فاتحہ کہا جاتا ہے۔
(۲)فاتحہ کی حقیقت یہ ہے کہ پورا قرآن شریف یا اس کی چند سورتیں پڑھ کر یا کوئی اور نیک کام کر کے  اس کا اجر ( جو کچھ اس کو ملتا ہو) اپنی جانب سے کسی اور کو بخش دے مثلاً قرآن شریف ( پورا نہ ہو تو اس میں سے ) سورہ فاتحہ ایک مرتبہ اور تین یا پانچ یا سات  یا گیارہ مرتبہ سورہ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اور اسی قدر درود شریف پڑھ کر یہ کہے کہ اس کلام پاک کا اور طعام وغیرہ کا ثواب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیاء و اولیاء کی ارواح کو پہنچ کر فلاں شخص کی روح کو اور جمیع امت محمدی کی ارواح کو پہنچے۔
(تنبیہ )قرآن شریف کی تلاوت یا اور کسی نیک کام کا ثواب اگر کئی مردوں کی روح کو پہنچایا جائے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ ثواب تقسیم ہو کر تھوڑا تھوڑا ان مردوں کو دیا جاتا ہو بلکہ ہر ایک کو پورا پورا ثواب ( جو اس تلاوت یا نیک کام پر مقرر ہے ) عنایت ہوتا ہے ۔ (یہ محض فضل الٰہی ہے ) ۔
(نصاب اہل خدمات شرعیہ، حصہ دوم، صفحہ ۶۴)