غیر کارکرد سرکاری ملازمین

مرکزی سرکاری ملازمین کے تعلق سے حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ غیر کارکرد اور کاہل ملازمین کا سالانہ اضافی تدریجی ادا نہیں کیا جائے گا۔ حکومت کا فیصلہ درست ہے مگر اس طرح کے فیصلہ کا اطلاق تمام سرکاری اداروں اور خود عوامی نمائندوں کی کارکردگی کا بھی احاطہ کرتے ہوئے کیا جانا چاہئے۔ سیاستدانوں کی عدم کارکردگی پر عوام ہر پانچ سال بعد اپنا فیصلہ سناتے ہیں مگر بعض سیاستداں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح سرکاری ملازمین کی کارکردگی کا ریکارڈ جانچ کرنے کا پیمانہ ہے تو حکمراں طبقہ کے ارکان کی کارکردگی کا نوٹ لینے کی ضرورت ہوگی۔ حکومت نے 7 ویں سنٹرل پے کمیشن کی سفارشات پر عمل آوری کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے اچھی اور صاف ستھری کارکردگی کا ریکارڈ رکھنے والے سرکاری ملازمین کو ترقی دینے اور ان کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ سرکاری محکموں میں کارکردگی کا پیمانہ ابتر ہوتا ہے یہ عام بات ہے مگر اب حکومت نے پے کمیشن کی سفارشات پر عمل کرنا شروع کیا ہے تو وہ اس پر کس حد تک کامیاب ہوگی یہ کہنا مشکل ہے کیوں کہ جب تک رشوت کا چلن عام ہے کسی بھی پیمانہ پر سرکاری ملازمین کی کارکردگی کو پرکھنا ممکن نہیں۔ رشوت کے بل پر ہر خراب کام درست کرلیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمتوں کا بنیادی اصول یہی ہے کہ ہر ملازم عوام کی بہتر سے بہتر خدمت انجام دے اور عوام کی شکایات کا ازالہ کرتے ہوئے ان کی ضرورتوں کو بروقت پوری کرے۔ مگر مشاہدہ اس کے برعکس ہے۔ سرکاری ملازمین اپنے ذمہ کا کام رشوت کی رقم کے بغیر پورا نہیں کرتے اور جہاں تک کارکردگی کا سوال ہے ہر وہ محکمہ جہاں رشوت خوری عام ہے کارکردگی اور کاموں کو فوری نمٹانے کا ریکارڈ پایا جاتا ہے۔

اس کی وجہ عہدیداروں کو خوش کرنے کے لئے رشوت اہم رول ادا کرتی ہے۔ مرکزی سطح کے تقریباً 50 لاکھ ملازمین ہیں ان کی کارکردگی کی ہر وقت ستائش کی جاتی ہے پھر بھی بعض محکمے اور عہدیداروں کی خرابیوں کی وجہ سے سرکاری نظام بدنام ہورہا ہے۔ اس ملک کا ہر شہری جو شعوری طور پر معاشرہ کی خرابیوں سے واقف ہے یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ملک میں خرابیوں کی اصل بنیاد کرپشن ہے۔ یہ وہی کرپشن ہے جس کی جڑ سے سیاست کا پودا اُگتا ہے۔ سیاستداں ہی کرپشن کو ہوا دیتا ہے اس وجہ سے سرکاری نظم و ضبط میں یہ لعنت تیزی سے پھیلی ہوئی ہے۔ پے کمیشن کی سفارشات کے مطابق اگر مرکزی حکومت نے اپنے ملازمین کی کارکردگی جانچ کی غیر کارکرد عہدیداروں کو سزا کے طور پر ان کا سالانہ انکریمنٹ روکنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کے ساتھ حکومت کو اس نظام میں بھی تبدیلی لانی ہوگی جس کی وجہ سے خرابی پائی جاتی ہے۔ یہ کرپٹ نظام ہی ہے جو سارے محکموں کو بدعنوان اور ناکارہ بناکر رکھا ہے۔ ایک طرف بدعنوان سیاستداں غریب عوام کی بے بسی کا فائدہ اُٹھاکر حکمرانی کے مزے لوٹتے ہیں اور دوسرا عہدیدار ہوتا ہے جو عوام کی سرکاری کاموں کی تکمیل کے لئے رشوت کے بغیرے آگے نہیں بڑھتا۔ دفتروں کے چکر کاٹنے والے شہریوں کو بخوبی اندازہ ہے کہ جب تک سرکاری بابو کو پیسہ نہ دیا جائے اس کا کام ہونے والا نہیں۔ اس لئے وہ مجبوراً گھر سے یہ ارادہ کے ساتھ ہی نکلتا ہے کہ آج اسے اپنے کاموں کی تکمیل کے لئے رشوت دینی پڑے گی۔

رشوت خور عہدیداروں کے بارے میں یہ حقیقت بھی تعجب خیز ہے کہ رشوت خوری کے ذریعہ انھوں نے کافی دولت جمع کرلی ہوتی ہے۔ انسداد رشوت ستانی محکمہ کے عہدیداروں کے آئے دن ہونے والے دھاوؤں سے انکشاف ہوتا ہے کہ معمولی چپراسی بھی کروڑہا روپئے کے اثاثہ جات کا مالک ہوتا ہے۔ اب ایسے میں مرکز کی نریندر مودی زیرقیادت بی جے پی حکومت نے پے کمیشن کی سفارشات پر دیانتداری سے عمل آوری کے ذریعہ سرکاری محکموں میں شفافیت لانے کی کوشش کی ہے تو اس کا یہ عزم ایک کمرہ میں بڑے ہاتھی کو داخل کرنے کی ناکام کوشش کے مترادف ہوگا۔ سرکاری عہدیداروں کی اچھی کارکردگی کی ہمیشہ ستائش ہوتی ہے۔ اگر حکومت پے کمیشن کی سفارشات پر دیانتداری اور سختی سے عمل کرنے لگے تو کارکرد اور غیر کارکرد عہدیداروں کے تناسب میں زبردست فرق پایا جائے گا۔ اور ایک دن غیر کارکرد سرکاری ملازمین کی تعداد اتنی زیادہ ہوجائے گی کہ وہ حکومت کی اس کوشش کو زیادتی کا نام دے کر احتجاج پر اتر آئیں  گے۔ ہڑتال اور ہنگامے کرنے پر آمادہ ہوگی اس کے بعد حکومت کا جذبہ سرد پڑجائے گا اور خرابیاں جوں کا توں برقرار رہیں گی۔ سرکاری ملازمین کو فعال اور نیک بنانے کی کوشش کی ستائش کی جاتی ہے لیکن یہ بہت بڑے چیلنج والا کام ہے۔ یہاں یہ خیال بجا ہے کہ شفاف منزل کا تعین کرنا اور صاف ستھری منزل کی راہیں سر کرنا سیاستداں ہی ازخود شروع کریں تو پھر سارا مسئلہ ہی ازخود ختم ہوگا۔