بیرونی ممالک سے رقم منتقلی کے فیصد میں کمی ، وطن واپس ہونے والے سنگین صورتحال سے دوچار
حیدرآباد۔15مئی (سیاست نیوز) ہندستانی معیشت کو مستحکم بنانے میں غیر مقیم ہندستانیوں کا انتہائی اہم کردارقرار دیا جاتا رہا ہے لیکن غیر مقیم ہندستانی کب تک اس کردار کو بخوبی نبھا سکیں گے؟خلیجی ممالک کے حالات میں رونما ہونے والی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا رہاہے کہ غیر مقیم ہندستانی جو مستقل واپسی اختیار کر رہے ہیں وہ ملک واپسی کے بعد سنگین مسائل کا شکارہوتے جا رہے ہیں اور ان مسائل کے حل کے سلسلہ میں ریاستی یا مرکزی حکومت کی جانب سے اب تک کوئی منصوبہ کا اعلان نہیں کیا گیا جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔ عالمی سطح پر معاشی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جاریہ سال غیر مقیم ہندستانی شہری اپنے ملک کو جتنی دولت روانہ کیا کرتے تھا اتنی دولت روانہ نہیں کر پائیں گے۔اقوام متحدہ کی جانب سے کروائے گئے ایک سروے کے مطابق سال 2016کے دوران غیر مقیم ہندستانی جو دنیا کے مختلف ممالک میں قیام پذیر ہیں نے اپنے ملک کو 62.74بلین ڈالر یعنی کم و بیش 4لاکھ کروڑ روپئے روانہ کئے تھیجو کہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں انتہائی اہمیت کے حامل رہے۔ اقوام متحدہ کے ایک ملحقہ ادارہ کی جانب سے جاری کردہ مطالعاتی رپورٹ کے مطابق غیر مقیم ہندستانیوں کی جانب سے روانہ کیا جا نے والے زر مبادلہ گھریلو شرح پیداوار کا 3.3حصہ ہو رہی ہے جو کہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ رپورٹ کے بموجب خلیجی ممالک ہندستانی شہریوں کے لئے اولین ترجیح رہے ہیں اور وہ خلیجی ممالک میں ملازمت کے حصول پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جبکہ ان میں مقبول ترین ملک امریکہ ہے جہاں پہنچنے کے لئے وہ کوشش کرتے ہیں ۔
انٹرنیشنل فنڈ فار اگریکلچرل ڈیولپمنٹ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق چھوٹے ملازمین بھی اپنے آبائی مقام کو کم از کم 200تا 300ڈالر روانہ کرتے ہیں اور ان کی تعداد 60فیصد کے قریب ہے۔ہندستانی شہری جو مختلف ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں ان کی جانب سے روانہ کی جانے والی رقومات کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ ان کی جانب سے اپنے خاندانوں کو روانہ کردہ رقومات ان کے خاندانوں کے معاشی استحکام کے علاوہ تعلیمی ترقی میں بھی اہم رول ادا کرتی ہیں۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ عالمی سطح پر سالانہ 450بلین ڈالر بطور زر مبادلہ منتقل کئے جاتے ہیں جن میں 62.74 بلین ڈالر ہندستان کا حصہ سال 2016میں رہا جبکہ امریکہ کو سب سے زیادہ زر مبادلہ کی منتقلی کرنے والا ملک تصور کیا جاتا ہے کہ کیونکہ دنیا بھر کے کئی ممالک کے شہری امریکہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور وہ اپنے آبائی ممالک کو اپنی کمائی روانہ کرتے ہیں۔ مطالعہ کے مطابق سال 2008سے 2016تک کا جائزہ لیا گیا تو یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان برسوں کے دوران اپنے ممالک کو رقومات کی منتقلی میں 10فیصد تک کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور آئندہ برسو ںمیں مزید گراوٹ کا اندیشہ ہے۔ماہرین کا کہناہے کہ غیر مقیم ہندستانی جو کہ دنیا کے مختلف ممالک میں خدمات انجام دیتے ہوئے ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے میں اہم کردار اداکر رہے تھے اب وہ خود مشکلات کا شکار ہونے لگے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور وہ اپنی جمع پونجی میں سے خرچ کے لئے مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔