غصّہ…حلم و تواضع کو تباہ کردیتا ہے

سید زبیر ہاشمی ، معلّم جامعہ نظامیہ

غصہ سے بچنے کی کچھ تدبیریں ہیں، اگر ان میں سے کوئی تدبیر اختیار کرلی جائے تو غصہ سے بچنا انتہائی آسان ہوجاتا ہے۔
(۱) پہلی تدبیر تو یہ ہے کہ غصہ آئے تو ’’أعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم‘‘ پڑھ لیا جاء، اس سے بندہ اللہ کی پناہ میں آجاتا ہے، کیونکہ غصہ کا ناروا استعمال شیطانی عمل ہے (۲) دوسری تدبیر یہ ہے کہ غصہ آئے تو فوراً وضوء کرلیا جائے۔ غصہ ایک طرح کی آگ ہے، جو جذبات سے بھڑکتی ہے اور آگ پانی سے بجھتی ہے، اس طرح غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا (۳) تیسری تدبیر یہ ہے کہ اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ رِبذہ کے مقام پر جا ٹھہرے تھے، جہاں آپ کی کچھ زمین تھی، جس پر کاشتکاری کرلیا کرتے تھے۔ ان کی عمر کا آخری دور تھا، وہاں سے دو تابعی حضرات کا گزر ہوا، جن میں سے ایک صاحب حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو جانتے تھے۔

انھوں نے اپنے ساتھی سے کہا ’’صحابہ کرام دنیا سے اٹھتے جا رہے ہیں، بہت کم صحابہ کرام اب دنیا میں باقی ہیں، دیکھو! وہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نظر آرہے ہیں۔ آؤ چلیں، ان سے ملاقات کا شرف حاصل کریں‘‘۔ یہ دونوں حضرات ملاقات کے لئے آگے بڑھے تو دیکھا کہ آبپاشی کے لئے منڈیریں (کچی نالیاں) بنی ہوئی ہیں، جن سے گزرکر کیاریوں میں پانی جا رہا ہے۔ یہ ان منڈیروں پر چلنے لگے تو ایک جگہ سے منڈیر ٹوٹ گئی اور پانی دوسری طرف بہہ نکلا۔ اتنے میں دیکھا کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اچانک بیٹھ گئے اور پھر لیٹ گئے، یہاں تک کہ آپ کیچڑ میں لت پت ہو گئے۔ ان حضرات کو خیال ہوا کہ شاید آپ کی طبیعت خراب ہو گئی ہے، یا بڑھاپے کی وجہ سے دماغی توازن بگڑ گیا ہے۔ لیکن جب ملاقات کی تو حضرت بالکل نارمل تھے۔ ان حضرات نے بیٹھنے اور لیٹ جانے کی وجہ دریافت کی تو حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’تم نے میری منڈیر توڑ دی تو مجھے غصہ آگیا تھا۔ میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آجائے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جائے‘‘۔ میں کھڑا تھا، اس لئے بیٹھ گیا اور پھر بھی غصہ کم نہ ہوا تو میں لیٹ گیا‘‘سبحان اﷲ! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر کس طرح من و عن عمل کرتے تھے (۴) چوتھی تدبیر یہ ہے کہ موقع سے ہٹ جائے اور اس کے سامنے نہ رہے، جس پر غصہ آرہا ہو (۵) پانچویں تدبیر یہ ہے کہ یوں سوچے کہ میرے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالی کو مجھ پر اس سے زیادہ غصہ آتا ہوگا، وہ مجھے معاف کر رہا ہے، لہذا میں بھی اس کو معاف کردوں۔

حضرت علامہ پروفیسر سید شاہ عطاء اﷲ حسینی ملتانی حفظہ اﷲ غصہ کے بارے میں بڑی پیاری تحریر فرمائے ہیں کہ غصہ پر قابو پانے کے لئے بڑے صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے، جو سنت نبوی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے دشمنوں نے کیسی کیسی اذیتیں پہنچائیں، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ بڑے صبر و تحمل سے کام لیا اور کبھی اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہ لیا۔ ایک مرتبہ ایک یہودی کو مسجد نبوی میں مہمان کی حیثیت سے ٹھہرایا گیا۔ وہ رات کو وہاں بول و براز کرکے بھاگ گیا۔ صبح فجر سے پہلے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام مسجد میں آئے تو دیکھا کہ مسجد میں نجاست پڑی ہوئی ہے۔ صحابہ کرام کو بڑا غصہ آیا، مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’غصہ نہ کرو، پانی لاؤ، تاکہ پانی ڈال کر مسجد دھو دی جائے‘‘۔ اِدھر مسجد دھوئی جا رہی تھی اور اُدھر بھاگے ہوئے مہمان کو یاد آیا کہ وہ اپنی تلوار مسجد میں بھول آیا ہے۔ سوچا ابھی اندھیرا ہے، جلدی سے جاکر اپنی تلوار لے آؤں۔ آیا تو دیکھا کہ مسجد دھوئی جا رہی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام مل کر غلاظت صاف کر رہے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مہمان پر پڑی تو آپ نے یہ تک نہ کہا کہ ’’تم نے یہ کیا حرکت کی ہے؟‘‘۔ اس سے صرف اتنا فرمایا کہ ’’تم اپنی تلوار بھول گئے تھے، یہ لے جاؤ‘‘۔ کیا صبر و تحمل کی اس سے اعلیٰ کوئی مثال ہوسکتی ہے؟۔
غصہ کی اس سے بڑی خرابی اور کیا ہوگی کہ اس کی وجہ سے طلاقیں ہوتی ہیں، بسے بسائے گھر اُجڑ جاتے ہیں، زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں، فحش گوئی اور گالی گلوچ ہوتی ہے، قتل و غارتگری ہوتی ہے۔ غصہ کے وقت خول اُترجاتا ہے اور اندر کا اصلی انسان ظاہر ہو جاتا ہے۔ غصہ، حلم و تواضع کو تباہ کردیتا ہے۔

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو: غلام کے ہاتھ سے آپ پر گرم گرم آش کا پیالہ گرجاتا ہے۔ آپ نے مڑکر دیکھا تو غلام خوفزدہ ہوکر پکار اُٹھا ’’وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ‘‘ (غصہ کو پی جانے والے) آپ نے فرمایا ’’میں نے غصہ پی لیا‘‘۔ غلام نے کہا ’’وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ‘‘ (لوگوں کو معاف کرنے والے) آپ نے فرمایا ’’میں نے معاف کیا‘‘۔ پھر غلام نے کہا ’’وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْن‘‘ (اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’جا، میں نے تجھے آزاد کیا‘‘۔
یاد رکھیئے ! انسان کو جب بھی غصہ آتا ہے تو اُس کی عقل چلی جاتی ہے، اس غصہ سے بہر حال سب مسلمانوں کو بچنا ہی چاہئے۔

غصہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے، اس سے ہر انسان کو بچنا چاہئے۔ صبر و ضبط، برداشت و تحمل کو اسلام میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ غصہ کی مذمت کرتے ہوئے اس سے گریز کا حکم دیا گیا۔ اللہ تعالی نے انسان کو دل عطا فرمایا اور اس دل میں پیار، محبت، خوشی اور مسرت بھی ہے، تو دوسری طرف انسان کی فطرت میں غصہ، غیظ و غضب جیسے جذبات بھی رکھ دیئے گئے۔ البتہ ان کا مناسب اظہار ہی انسان کو انسانیت سے مالا مال کرتا ہے۔
حالت غیظ و غضب میں ضبط اور برداشت سے کام لینا، بے موقع غصہ کا اظہار نہ کرنا، انتقام نہ لینا اور درگزر کردینا ہی متقیوں کی صفت ہے۔ اللہ تعالی سورہ آل عمران میں ارشاد فرماتا ہے ’’جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں، ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں‘‘۔ ایک اور جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اور جب غصہ آجاتا ہے تو معاف کرتے ہیں‘‘ (سورہ شوریٰ) اس آیت مبارکہ میں مؤمن کی بہترین صفت کا ذکر موجود ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کسی شخص کی طرف سے اذیت پہنچتی ہے تو اس پر غصہ آنا فطری بات ہے، مگر غصہ کی بجائے معاف کرنا یا درگزر سے کام لینا ایک مؤمن کی بہترین خوبی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ’’مجھے اللہ کے غضب سے کونسی چیز بچا سکتی ہے؟‘‘ تو آپ نے فرمایا ’’دوسروں پر غصہ کرنا چھوڑدو، اللہ کے غضب سے محفوظ رہو گے‘‘۔ اللہ تعالی ہم سب کو صبر و تحمل عطا فرمائے اور غصہ سے بچاکر ہماری عقلوں کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)
zubairhashmi7@gmail.com