نشیمن پر نشیمن اس طرح تعمیر کرتا جا
کہ گرتے گرتے بجلی آپ خود بیزار ہوجائے
غزہ کی تعمیر نو
فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کی پردہ پوشی کرنے والے مغربی ممالک نے اب غزہ میں یہودی بمباری سے ہونے والی تباہی کی بازآبادکاری اور تعمیر کے لئے امداد دینے کا عہد کیا ہے۔ قاہرہ میں منعقدہ ایک اجلاس میں عالمی عطیہ دہندگان نے تباہ شدہ غزہ پٹی کی تعمیر نو کے لئے اربوں ڈالر امداد دینے پر غوروخوض کیا۔ امریکہ نے 212 ملین ڈالر کا وعدہ کیا ہے جبکہ اس تباہ شدہ ملک کی تعمیر نو کے لئے لاکھوں ڈالر درکار ہیں۔ اسرائیلی حملوں نے غزہ کے کم از کم ایک لاکھ رہائشی بے گھر ہوگئے ہیں۔ مساجد، ہاسپٹلس، سرکاری عمارتیں تباہ کردی گئیں۔ 26 اگست کو غزہ جنگ بندی کے معاہدہ کے بعد عالمی برادری کو اندازہ لگانے میں تاخیر ہوئی ہے کہ اسرائیلی حملوں سے غزہ کے مکینوں کا کتنا جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ 3 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے تھے۔ اسرائیل کی زیادتیوں کو یکلخت ختم کرنے کی ضرورت ہے، مگر عالمی برادری صرف فلسطینیوں کے دکھ درد میں معمولی امداد دے کر بھاری نقصانات اورجنگی جرائم کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسرائیل کے ناجائز قبضوں کو برخاست کرنے تک عالمی برادری اپنے فرائض سے سبکدوش نہیں ہوسکتی۔ اسرائیل نے اپنے فوجوں اور آبادکاروں کو سال 2005ء میں غزہ سے نکال لیا تھا، اس کے بعد سے اسرائیل یہی باور کروایا ہے کہ غزہ پر اس کا قبضہ ختم ہوچکا ہے۔ درحقیقت اسرائیل عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ غزہ کے زیادہ تر سرحدی علاقوں، اس کے پانی اور فضاء پر اب بھی اسرائیل کا کنٹرول ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین پر ایک محدود علاقہ تک ہی محروس رکھ کر اسرائیل اپنی ناجائز آبادیوں کو وسعت دے رہا ہے۔ غزہ پر اس کی بدنگاہی کے نتیجہ میں ہی شدید بمباری کے بعد غزہ کے کچھ محلے زلزلہ زدہ علاقے کا منظر پیش کررہے ہیں۔ اب مغربی، یوروپی دنیا کے عطیہ دہندگان اس تباہ شدہ علاقہ کی امداد کرکے اپنا ایک فریضہ پورا کررہے ہیں جبکہ ان کا اصل فریضہ انسانیت کو پہونچانے والے نقصانات کو ختم کرنے اسرائیل پر لگام کسا جائے۔ امدادی کاموں کے لئے بھی ضروری ہے کہ اسرائیل کی سرگرمیوں کو روک دیا جائے۔ غزہ کی تعمیر نو کا انحصار اسرائیل کی مرضی پر ہے۔ تعمیراتی سامان بھی غزہ میں لانے کے لئے اس کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ کام ایک متنازعہ بن جائے گا۔ 1967ء سے اب تک اسرائیل نے جس طرح کی تباہی مچائی ہے، اس کا نوٹ لیا جانا ضروری ہے۔ امریکہ کو اس خصوص میں خاص توجہ دینی چاہئے تھی مگر وہ بھی امداد کی حد تک اظہار ہمدردی کے بعد اسرائیل کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ تازہ ترین سروے کے مطابق غزہ میں بستیوں کو اجاڑنے والے اسرائیل نے آئندہ بھی تباہ کن حملوں کے منصوبے بنائے ہیں۔ اس نے اپنی 50 روزہ حالیہ جنگ میں فلسطینیوں کا جانی و مالی نقصان کیا ہے۔ اس کو بین الاقوامی جنگی جرائم میں ماخوذ کئے جانے کی جانب کسی نے کوشش نہیں کی۔ اسرائیل کو سزا سنانے کے بجائے غزہ کے زخموں پر برہم رکھتے ہوئے عالمی برادری اپنی ذمہ داریوں سے فرار ہونے کی کوشش کررہی ہے۔ اسرائیل ۔ فلسطین کی سرحدی لڑائی کو روکے بغیر کوئی بھی عالمی طاقت فلسطین میں قیام امن اور خوشحالی لانے کا دعویٰ نہیں کرسکے گی۔ قاہرہ کانفرنس میں اسرائیل کو بھی مدعو کرنے کی ضرورت تھی تاکہ اسے عالمی برادری کے اصولوں کے مطابق پابند بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس کانفرنس میں عالمی برادری نے صرف تعمیر نو پر ہی اپنی توجہ مرکوز کی تھی۔ مصر اور ناروے کے تعاون سے اگرچیکہ اقوام متحدہ، یوروپی یونین اور عرب لیگ بھی عطیہ دہندگان میں شامل ہے، انہیں غزہ کا طویل مدتی قابل لحاظ پرامن حل بھی نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی۔ اس کانفرنس سے ایک حوصلہ افزاء علامت یہ ظاہر ہوئی کہ غزہ میں پیدا شدہ انسانی بحران کو دور کرنے تمام ملک متفق ہوگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل پر لگام کسا جانا چاہئے۔ اس کی جارحیت سے ہی فلسطینیوں کو مسائل کا سامنا ہے۔ اس ہفتہ سوئیڈن نے فلسطینی مقتدر اعلیٰ کو سرکاری طور پر تسلیم کرلیا ہے۔ بلاشبہ فلسطینیوں کی آزادی ان کا فطری حق ہے اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق فلسطین میں آزادی اور انصاف کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کو بھی سابق قراردادوں کو روبہ عمل لانا چاہئے جنہیں ماضی میں اسرائیل نظرانداز کررہا تھا اور اپنی غیرمنصفانہ پابندیوں کو ہٹانے سے انکار کیا تھا۔ غزہ اور دیگر علاقوں میں اسرائیل کی پابندیاں اور رکاوٹوں کے علاوہ بیجا سکیورٹی انتظامات کی وجہ سے عوام کو غذا، پانی اور تعلیم اور دیگر بنیادی حقوق کے حصول سے غیرضروری روکنا بھی جرم ہے۔ اسرائیل اپنی پابندیوں کے ذریعہ غزہ کی آبادی کی بنیادی ضرورتوں کو سراسر نظرانداز کررہا ہے۔ عالمی عطیہ دہندگان کو اس خصوص میں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔