غزہ / یروشلم 5 اگسٹ ( سیاست ڈاٹ کام ) اسرائیل اور فلسطینی گروپس کے مابین مصر کی کوششوں سے 72 گھنٹوں کی جنگ بندی کا اضطراب آمیز انداز میں آج صبح آغاز ہوا ۔دیرپا جنگ بندی کو یقینی بنانے کیلئے فلسطینی وفد کے تین ارکان غزہ سے آج براہ رفح سرحد قاہرہ پہنچ گئے۔ ان میں اسلامی جہاد رکن خالد البطش، اور حماس کے سینئر عہدیداران خلیل الحئی اور عماد العلمی شامل ہیں۔صدر محمد عباس کی فلسطینی اتھاریٹی کی نمائندگی کر رہا وفد پہلے ہی سے مصر کی دعوت پر قاہرہ میں موجود ہے۔ ا سرائیل نے ابتداء میں اپنے مذاکرات کار بھیجنے سے انکار کیا تھا لیکن ایک عہدیدار نے کہا کہ اس کی ایک ٹیم قاہرہ روانہ ہورہی ہے۔ فلسطینی وفد نے مصر کے مصالحت کاروں کے روبرو جو مطالبات پیش کئے ہیں ، ان میں جنگ بندی ، غزہ سے اسرائیلی فوج کی دستبرداری، محاصرہ ختم کرنا اور سرحدی راستوں کو کھولنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ غزہ کے ساحل میں 12 مل کے فاصلہ تک ماہی گیری کا حق اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے ۔
مصر کے مصالحت کار ان مطالبات کو اسرائیل سے رجوع کریں گے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اسرائیل کے ابتداء میں چار مطالبات کو قبول اور دیگر تین کو مسترد کردیا تھا ۔ سفارتی ذرائع کے مطابق اسرائیل نے غزہ ایرپورٹ کی دوبارہ کشادگی ، ساحلی بندرگاہ کی تعمیر اور مغربی کنارہ و غزہ کے مابین رابطہ برقرار رکھنے کی ضمانت دینے سے انکار کیا ہے ۔ دوسری طرف اس نے غزہ میں لڑائی روکنے ، محاصرہ ختم کرنے اور ساحلی پٹی پر 12 مل کے فاصلہ تک ماہی گیری کے حقوق دینے کے علاوہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی سے اتفاق کیا۔ آج جنگ بندی کے آغاز کے ساتھ ہی یہودی مملکت کی جانب سے ساحلی پٹی کے علاقوں سے اپنی افواج کی دستبرداری کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے جس سے دیرپا جنگ بندی کی امیدیں پیدا ہوگئی ہیں۔یہاں کئی دن سے اسرائیلی فوج موجود رہی تھی ۔
جنگ بندی کے نفاذ سے قبل حماس کی جانب سے اسرائیل پر کئی راکٹ حملے کئے گئے اور ان حملوں کو اسرائیل کی جانب سے کئے گئے فلسطینیوں کے قتل عام کا بدلہ قرار دیا گیا ہے ۔ آج صبح مقامی وقت کے مطابق آٹھ بجے سے جنگ بندی کا آغاز ہوا ۔ اس سے عین قبل حماس کی جانب سے اسرائیل پر طویل فاصلہ تک وار کرنے کی صلاحیت والے راکٹس داغے گئے ۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس نے یہ راکٹس اسرائیل کی جانب سے کئے گئے قتل عام کے بدلہ کے طور پر داغے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے کئے گئے وحشیانہ فضائی حملوں میں اب تک جملہ 1900 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے ۔ صبح جب حماس کی جانب سے راکٹس داغے گئے اسرائیل کے ٹاؤنس اشداد ‘ اشکیلان ‘ ڈاٹ ہانیگیو ‘ کریات ملاچی ‘ روہوات اور دیگر ٹاؤنس میں حملے کے سائرن بجائے گئے ۔ اسرائیل کی فوج نے ادعا کیا ہے کہ حماس کی جانب سے جملہ 17 راکٹس داغے گئے تھے جن کے منجملہ چھ کو اسرائیل کے میزائیل ڈیفنس سسٹم نے ناکام بنادیا ہے ۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان راکٹوں کے نتیجہ میں معمولی نقصان ہوا ہے تاہم کسی کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے ۔ سکیوریٹی ذرائع نے کہا کہ گریٹر یروشلم کے علاقہ میں راکٹس کے ٹکڑے بھی دیکھے گئے جن سے پتہ چلتا ہے کہ ان راکٹس کو فضا میں ناکام بنادیا گیا ہے ۔ اسرائیلی فورسیس نے بھی چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کی ہے تاہم جنگ بندی کے نافذ ہونے سے عین قبل فائرنگ اور راکٹ حملوں کا سلسلہ روک دیا گیا ہے ۔
س دوران اسرائیلی حملہ آور فوج کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی جو فوج برسر پیکار تھی اس سے دستبرداری اختیار کرلی جا رہی ہے تاہم جو محفوظ فوجی طلب کرلئے گئے تھے ابھی انہیں چھوڑا نہیں جا رہا ہے ۔ اسرائیلی افواج غزہ کے باہر دوبارہ متعین کی جائیں گی اور دفاعی ٹھکانے چوکس رہیں گے ۔ لیفٹننٹ کرنل پیٹر لرنر نے کہا کہ ہم اپنے دفاعی مورچے برقرار رکھیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر حماس کی جانب سے جنگ بندی کی کسی طرح کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو اسرائیل کی فوج اس کا جواب دے گی ۔ وزیر اعظم اسرائیل بنجامن نتن یاہو نے کل رات دیر گئے اپنی کابینہ سے کہا کہ انہوں نے حماس کے ساتھ تین دن کی جنگ بندی سے اتفاق کرلیا ہے اور اس کا منگل کی صبح سے آغاز ہوا ہے ۔ حماس کے ایک ترجمان نے بھی اعلان کیا ہے کہ ان کے گروپ نے بھی تین دن کی جنگ بندی سے اتفاق کیا ہے اور ان تین دنوں کے دوران جنگ بندی کے معاہدہ میں توسیع کیلئے مزید تبادلہ خیال کا موقع فراہم ہوگا ۔