نئی دہلی۔ 27؍جولائی (سیاست ڈاٹ کام)۔ ’’غزہ میں ہم مؤذن کی آواز یا سائرن بجنے پر نہیں بلکہ بم دھماکوں کی خطرناک آوازوں میں روزہ کھولا کرتے تھے۔‘‘ یہ بات لکھنؤ کے 35سالہ عبدالرحمن نے بتائی، جو غزہ سے واپس ہوئے ہیں۔ ان کے ارکان خاندان کو اب تک یہ یقین نہیں ہورہا ہے کہ عبدالرحمن صحیح سلامت اپنے گھر واپس ہوئے۔ وہ غزہ میں گزشتہ دو سال سے ٹیلر کا کام کررہے تھے۔ ان کے علاوہ دیگر جملہ چار ٹیلرس کو رملہ میں واقع ہندوستانی دفتر کی مدد سے بحفاظت منتقل کیا گیا ہے۔ انھوں نے لکھنؤ سے فون پر بتایا کہ غزہ میںہر وقت بموں کی آوازیں سنائی دیتی ہے، آسمان پر راکٹوں کی بارش دکھائی دیتی ہے اور یہ روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ ہمارے روزے بم دھماکوں میں ہی شروع ہوتے اور ہم انہی آوازوں میں روزہ بھی کھولا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری زندگی ہر وقت خوف کے سایہ میں گذر رہی تھی۔
انہیں وہاں کے حالات کا تصور کرتے ہی جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ عبدالرحمن نے کہا کہ میں نے لوگوں کو بموں کی زد میں آتے اُن کے جسموں کے پرخچے اُڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ بم دھماکوں کے بعد ہر طرف انسانی نعشیں بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں جیسی ہی یہ آوازیں آتی ہیں لوگ بچنے کیلئے ادھر اُدھر دوڑنے لگتے ہیں۔ خود ہمارا یہ حال تھا کہ ہر وقت ادھر سے اُدھر باگا کرتے تھے۔ ہم نے کچھ نہیں کھایا تھا اور کمرے کے ایک کنارے بیٹھے رو رہے تھے۔ہماری نظروں کے سامنے تباہی و بربادی کے مناظر تھے اور ہم اللہ سے نہ صرف ہماری سب کی حفاظت کیلئے دعائیں کیا کرتے تھے۔ یہ چاروں ہندوستانی گذشتہ اتوار کو غزہ پٹی سے واپس ہوئے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ لڑائی کا سب سے زیادہ خونریز دن تھا جب کہ 97فلسطینی جاں بحق اور 13اسرائیلی سپاہی ہلاک ہوئے تھے۔