غزہ حفظانِ صحت اور انسانی آفت کی سمت رواں‘ اقوام متحدہ کا انتباہ

اقوام متحدہ۔ 3؍اگسٹ (سیاست ڈاٹ کام)۔ کئی ہفتوں کی شدید جنگ کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غزہ پٹی ’’صحت اور انسانی آفت‘‘ کی سمت رواں ہے۔ طبی خدمات اور دواخانے جو تقریباً 18 لاکھ فلسطینیوں کی طبی امداد کرتے تھے، تباہی کے دہانے پر ہیں۔ اقوام متحدہ کے اس علاقہ میں تعینات ایک سینئر عہدیدار کے بموجب کم از کم 1,676 فلسطینی جن میں سے بیشتر بے قصور شہری ہیں، ہلاک کئے جاچکے ہیں اور 9 ہزار افراد زخمی ہیں۔ حماس زیر قیادت غزہ پٹی پر 8 جولائی سے اسرائیلی جارحانہ فوجی کارروائی کا آغاز ہوا تھا۔ مقبوضہ فلسطین میں تعینات اقوام متحدہ کے انسانی رابطہ کار جیمس رالے نے کہا کہ ہم اب صحت اور انسانی آفت کے منتظر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جنگ فوری بند ہونی چاہئے۔

صحت کی آفت کے بارے میں خبردار کرنے میں رالے کے ہمنوا ڈائریکٹر آپریشنس برائے غزہ پٹی اقوام متحدہ راحت رسانی کاموں کے ادارہ نے کہا کہ مشرقی علاقہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے رابرٹ ٹرنر عالمی تنظیم صحت کے مقامی دفتر کے کارگزار صدر ہیں۔ وہ مغربی کنارہ اور غزہ پٹی میں کام کرتے ہیں۔ دونوں عہدیداروں نے تحفظ فراہم کرنے والے طبی عملے اور دواخانوں کی قلت پر فکرمندی ظاہر کی۔ ہنگامی صحت خدمات تک رسائی انحطاط پذیر ہے۔ غزہ پٹی کے 18 لاکھ فلسطینی بے بس ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کے تین ہفتے بعد غزہ کی طبی خدمات اور دواخانے تباہی کے دہانے پر ہیں۔ ایک تہائی ہاسپٹل، 14 ابتدائی حفظانِ صحت کے دواخانے اور 29 فلسطینی ہلال احمر اور وزارت صحت کی امبولنس گاڑیاں جنگ کے دوران تباہ ہوچکی ہیں۔ اقوام متحدہ کے بموجب کم از کم 5 ارکان طبی عملہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک کئے جاچکے ہیں اور دیگر کئی زخمی ہیں۔ طبی عملے کے 40 فیصد ارکان اپنے مقامات ملازمت جیسے دواخانوں تک پہنچنے سے قاصر ہیں، کیونکہ ہر طرف تشدد پھیلا ہوا ہے۔

تقریباً نصف حفظانِ صحت دواخانے بند ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے عہدیداروں کا تازہ انتباہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے ٹوٹ جانے کے پس منظر میں اہمیت رکھتا ہے جو امریکہ اور اقوام متحدہ کی ثالثی سے ہوئی تھی۔ سکریٹری جنرل اقوام متحدہ بانکی مون نے مایوسی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقین خاص طور پر غزہ کے شہریوں کو انتہائی ضروری راحت رسانی کے سوائے ہم ان کے زخموں کی مرہم پٹی بھی نہیں کرسکے، نہ مہلوکین کی تدفین کرسکے ہیں۔ اہم عمارتوں کی تعمیر و مرمت بھی باقی ہے۔ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی وجہ سے دوبارہ کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ 24 گھنٹے سے نامعلوم افراد ہاسپٹلس کے طبی عملے کو رفاہ اور غزہ سٹی میں ٹیلیفون پر مزید حملوں کا تباہ دے رہے ہیں جس کی وجہ سے طبی عملے میں دہشت اور انتشار پھیل گیا ہے۔ 7 جولائی سے 8 ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوچکے ہیں جن میں سے کئی کی حالت تشویشناک ہے۔ ادویہ کی شدید قلت ہے۔ موجودہ ذخیرہ انحطاط پذیر ہے اور زیادہ تر ذخیرہ تباہ ہوچکا ہے۔ دواخانوں کو برقی سربراہی منقطع ہوچکی ہے اور انھیں جنریٹرس پر انحصار کرنا پڑرہا ہے۔ غزہ پٹی کے سب سے بڑے دواخانہ الشفاء میں مہلوکین کی نعشیں بھری ہوئی ہیں۔ لوگ دواخانہ سے مدد طلب کررہے ہیں،

لیکن ضروری حفظانِ صحت فراہم کرنے سے دواخانہ قاصر ہے جس کی وجہ سے ہزاروں فلسطینیوں کی زندگی غیر ضروری طور پر خطرے میں پڑگئی ہے۔ ان مصائب میں پہلے سے ہی سنگین صورتِ حال مزید اضافہ کررہی ہے۔ ایک تخمینہ کے بموجب 4 لاکھ 7 ہزار افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور پُرہجوم اسکولس میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ان کے رشتہ دار عارضی خیموں میں مقیم ہیں۔ اس کے علاوہ پانی اور صفائی کی قلت کی وجہ سے پانی کے ذریعہ پھیلنے والے متعدی امراض کا خطرہ سنگین ہوگیا ہے۔ لاکھوں افراد ہولناک حالات میں قیام پذیر ہیں۔ اقوام متحدہ کی ادارہ عملے کی فراہمی کی کوشش کررہا ہے تاکہ ہر ایک کو طبی امداد فراہم کی جاسکے۔ جیمس رالے نے پُرزور انداز میں کہا کہ بین الاقوامی قانون واضح ذمہ داریاں جنگ کے دونوں فریقین پر عائد کرتا ہے کہ وہ ہاسپٹلس اور طبی عمارتوں کو تحفظ فراہم کریں، ان کے موقف کا احترام کریں اور طبی ارکان عملہ کے تحفظ کو یقینی بنائیں تاکہ شہریوں کا تحفظ اور ان کے بنیادی حق صحت کا تحفظ یقینی بن سکے۔ فلسطینی ہلاکتوں کی تعداد جاریہ اسرائیلی فوجی حملے میں جو غزہ پٹی پر کیا گیا تھا، 2008-09ء کی فوجی کارروائی سے زیادہ ہوچکی ہے، تقریباً 400 فوجی زخمی ہوگئے ہیں، 3 اسرائیلی شہری اور تھائی لینڈ کا شہری راکٹ اور مارٹر حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔