حیدرآباد ۔ 7 ۔ مئی : ( نمائندہ خصوصی ) : اپنے اور اپنوں کے لے جینا کوئی بڑی بات نہیں بڑی بات تو وہ ہے جب کوئی دوسرے کے لئے جئے اپنی زندگی دوسروں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کردے۔ دنیا میں ہر روز بے شمار بچے پیدا ہوتے ہیں اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس جہاں فانی سے کوچ بھی کر جاتے ہیں لیکن وہی شخصیتیں زمانے میں اہم مقام حاصل کرلیتی ہیں جن کی سوچ و فکر میں ہمیشہ دوسرے انسانوں کی بھلائی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ دنیا میں ہر لمحہ کثیر تعداد میں بچے بوڑھے جوان اور خواتین موت کی نیند سو جاتے ہیں ان میں سے اکثر کو کوئی یاد رکھنے والا نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان لوگوں نے خود اپنے لئے زندگی گذاری تھی انہیں دوسروں کی خوشیوں ان کے غموں کی کوئی فکر نہیں تھی ۔ انسانیت کی خدمت کے لئے خالق کائنات اپنے بندوں کو چن لیتے ہیں۔ ورنہ آج ہمارے معاشرہ میں دولت مندوں کی کوئی کمی نہیں لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ معاشرہ کی بہبود کے لئے اپنی رقم میں سے ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کے قابل نہیں حد تو یہ ہے کہ ڈھیر ساری دولت رکھنے کے باوجود وہ اپنی پسند کی غذاء تک استعمال نہیں کرسکتے۔ اللہ عزوجل نے ان لوگوں کے پیٹوں کو ادویات کے اسٹور روم میں تبدیل کردیا ہے ان کے دل رحم، ہمدردی، محبت و مروت کے جذبہ سے خالی کردیئے گئے ہیں اس کے باوجود انہیں اپنی دولت اور شہرت پر ناز ہوتا ہے۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ زندگی کا چراغ کسی بھی وقت گل ہوسکتا ہے۔ یہ ساری دولت شہرت اور چاپلوسوں کی واہ واہ دھری کی دھری رہ جائے گی اور ایک چھوٹا سا اندھیرا گڑھا ان کا آخری ٹھکانہ ہوگا جہاں اے سی کی سہولت ہوگی نہ ہی نوکر چاکر ہاں وہاں تو بس انسان کے اعمال ہی کام آئیں گے۔ قارئین دیکھا جائے تو انسان کہلانے کے لائق وہی انسان ہوتے ہیں جو مرکر بھی دوسرے انسانوں کو نئی زندگی عطا کر جاتے ہیں۔ اپنی موت کے باوجود وہ دوسروں کی آنکھوں کی روشنی واپس لانے کا باعث بنتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے اعضاء جسمانی بستر مرگ پر پڑے مریضوں کے لئے زندگی کی نوید لے آتے ہیں۔ جذبہ انسانیت و ہمدردی کے لئے دولت مند ہونا ہی ضروری نہیں ہے۔ غریبی میں بھی یہ جذبہ اپنے نقطہ عروج پر ہوتا ہے۔ ایسا ہی جذبہ نظام آباد کی ایک غریب مزدور خاتون لنگم پیٹا شاردا اور اس کے بچوں میں دیکھا گیا۔ یہ خاتون اپنی موت کے بعد بھی کم از کم 6 افراد کو ایک نئی زندگی عطا کرنے کا باعث بنی ہے۔ یومیہ اجرت پر مزدوری کرنے والی شاردا کو ڈاکٹروں نے دماغی طور پر مردہ قرار دیا۔ ضلع نظام آباد کے موضع پیدا ملا ریڈی (منڈل بھکنور) کی ساکن 45 سالہ شاردا کے بارے میں منظر عام پر آئیں تفصیلات کے مطابق اس نے پچھلے جمعہ کو شدید سردرد کی شکایت کی جس پر اسے نظام آباد کے ایک اسپتال میں شریک کرادیا گیا اور ہفتہ کو حیدرآباد کے گلوبل اسپتال میں اس کی منتقلی عمل میں آئی۔ گلوبل ہاسپٹلس کے ڈاکٹر ہریندر ناتھ کے مطابق نظام آباد کے ایک اسپتال نے شاردا کی پیچیدہ حالت کو دیکھتے ہوئے گلوبل اسپتال سے رجوع کیا۔ ڈاکٹر ہریندر ناتھ کہتے ہیں ’’ہم شاردا کا علاج شروع کرتے ہوئے اسے دماغی طور پر مردہ پایا۔ یہ خبر شاردا کے ارکان خاندان کے لئے ایک صدمہ ثابت ہوئی اس کے باوجود ان لوگوں نے غیر معمولی حوصلہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے جسمانی اعضاء بطور عطیہ پیش کرنے پر رضامندی ظاہر کی تاکہ دوسرے ضرورت مند مریضوں کی جان بچائی جاسکے۔ شاردا کے غمزدہ بیٹے سریش نے گلوگیر آواز میں بتایا ’’ہم اپنی ماں کو واپس نہیں لا سکتے لیکن یہ سوچ کر ہمارا غم کم ہوا کہ اپنی متوفی ماں کے اعضائے جسمانی کا عطیہ دیتے ہوئے دیگر 6 مرد و خواتین کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔ میری ماں ہمیں چھوڑ کر چلی گئی اور اس سے ہمارے خاندان کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے، لیکن ہمیں اس پر فخر ہے کیونکہ اس نے اُن افراد کے خاندانوں میں خوشیاں واپس لائی ہیں جو شدید بیمار تھے کسی کو گردہ کسی کو جگر کسی کو قلب کے والو اور بعض کو آنکھوں کی شدید ضرورت تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ چار گھنٹے طویل آپریشن کے بعد ڈاکٹروں نے شاردا کے جسم سے گردے، جگر، دل کے والو اور آنکھیں نکالنے میں کامیابی حاصل کی اور پھر 9 گھنٹے طویل آپریشن کے ذریعہ دہلی کے ایک 54 سالہ شخص کے جگر کی پیوند کاری کی گئی جبکہ گردہ چار مینار کی رہنے والی 31 سالہ خاتون کو عطیہ دیا گیا۔ دوسرا گردہ دکن اسپتال میں زیر علاج مریض کو دیا گیا۔ آنکھیں ایل وی پرساد آئی انسٹی ٹیوٹ بھیجی گئیں اور دل کے والو انووا اسپتال روانہ کردیئے گئے۔ اس طرح ایک غریب مزدور خاندانوں نے مرکر بھی دوسروں کی زندگی کا سامان کیا۔