غریب عقل مند

ایک اعرابی نے اونٹ پر ایک بڑی بوری گیہوں کی لادی اور اسی قسم کی ایک دوسری بوری ریت سے بھر کر اونٹ کے دوسری طرف لاد دی ۔ خود ان دونوں کے اوپر بیٹھ گیا ۔ راستے میں ایک مسافر سے ملاقات ہوئی ۔ اس نے پوچھا کہ میاں شتر سوار کہاں سے آرہے ہوں ؟ اعرابی نے اپنا وطن بتایا ۔
مسافر نے پوچھا ان دونوں بوریوں میں کیا بھرا ہے ؟ اعرابی نے کہا ایک بوری میں گیہوں ، دوسری میں ریت ہے ۔ مسافر نے حیران ہوکر پوچھا ۔ اس ریت کی کیا ضرورت تھی ؟ اعرابی نے کہا اس اناج کی دونوں میں برابر تقسیم کرلیتے ، وزن برابر ہوجاتا ۔ اعرابی نے کہا شاباش ، اے حق گو اور دانا دوست افسوس کہ ایسی سمجھ بوجھ کے باوجود تو بے سرو سامان ہے اور پیدل سفر کر ہرا ہے ۔ کچھ اپنا حال بیان کر تیریعقل مندی کا تو تقاضا یہ ہے کہ تو کسی جگہ کا بادشاہ یا وزیر ہو ۔ مسافر نے کہا میں تو ایک عام آدمی ہوں ۔ مجھے بادشاہی سے کیا نسبت میری حالت کا  اندازہ تم میری کپڑوں سے کرسکتے ہو ۔ اعرابی نے کہا تمہارے پاس اونٹ اور پالتو جانور تو ضرور  ہوں گے ۔ مسافر نے کہا نہ اونٹ نہ گائے بس زیادہ نہ پوچھو ۔ اعرابی نے کہا تو پھر کاروبار کرتے ہوگے ۔   اس نے کہا نہ میری کوئی دکان ہے نہ مکان سچ پوچھو تم روٹی بھی مشکل سے ملتی ہے ۔ اعرابی نے پوچھا تیرے پاس نقد کیا ہے ۔ مسافر نے کہا خدا کی قسم میں تو نان شبینہ کو محتاج ہوں ۔ میرے پاس نہ پیسہ ہے نہ کپڑے مجھے اس عقل و دانش سے خیالی پلاؤ پکانے کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ یہ سن کر اعرابی کے تیور بدل گئے اور بولا ۔ یہاں سے فوراً چلتا بن ایسا نہ ہو کہ تیری نحوست کا سایہ مجھ پر پڑ جائے ۔ مجھے ایسی عقل کی ضرورت نہیں ۔ میری بے وقوفی تیری عقل مندی سے بہتر ہے ۔