غریب اقلیتی لڑکیوں کی شادی اسکیم کیلئے 200 کروڑ مختص کرنے کا فیصلہ

ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمد محمود علی کا اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کے ساتھ اجلاس، مختلف امور پر بات چیت
حیدرآباد۔/13ستمبر، ( سیاست نیوز) حکومت تلنگانہ نے بجٹ 2014-15 میں غریب اقلیتی لڑکیوں کی شادی کیلئے فی کس 51ہزار روپئے امداد سے متعلق اسکیم کیلئے تقریباً 200کروڑ روپئے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت ایک سال میں تقریباً 40ہزار غریب لڑکیوں کی شادی کیلئے امداد کا منصوبہ رکھتی ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے آج اقلیتی بہبود کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ بجٹ کی تیاریوں اور ترجیحات کا جائزہ لیا۔ اسپیشل سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل، کمشنر اقلیتی بہبود شیخ محمد اقبال، ڈائرکٹر اقلیتی بہبود محمد جلال الدین اکبر، منیجنگ ڈائرکٹر اقلیتی فینانس کارپوریشن پروفیسر ایس اے شکور اور ایکزیکیٹو آفیسر حج کمیٹی ایم اے حمید نے اجلاس میں شرکت کی۔ محمود علی نے عہدیداروں کو ہدایت دی کہ وہ بجٹ میں غریب اقلیتی لڑکیوں کی شادی کی اسکیم کیلئے کم از کم 200کروڑ روپئے مختص کریں کیونکہ حکومت کم از کم 40ہزار غریب لڑکیوں کی شادی میں امداد کا منصوبہ رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ اس اسکیم پر موثر عمل آوری کے سلسلہ میں سنجیدہ ہیں تاکہ اقلیتوں کے غریب خاندانوں میں لڑکیوں کی شادی کے مسئلہ کو آسان کیا جاسکے۔ اس اسکیم کے تحت فی خاندان 51ہزار روپئے امداد دی جائے گی۔ اجلاس میں طئے کیا گیا کہ اس اسکیم سے استفادہ کیلئے شرائط و ضوابط میں شفافیت برقرار رکھی جائے اور ڈسٹرکٹ میناریٹی ویلفیر آفیسر اور متعلقہ ایم آر او کے ذریعہ ضروری جانچ کے بعد درخواستوں کو منظوری دی جائے۔ شادی کی تکمیل کے بعد متعلقہ خاندان سیاہنامہ کے ساتھ درخواست داخل کریں تو اندرون تین یوم رقم ان کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کردی جائے گی۔ عہدیداروں نے اجتماعی شادیوں کے سلسلہ میں بجٹ میں 8کروڑ روپئے کی گنجائش رکھی تھی۔ حکومت نے اس اسکیم کی جگہ فی کس 51ہزار روپئے امدادی اسکیم کا آغاز کرتے ہوئے رقم کو 200کروڑ کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے عہدیداروں کو مشورہ دیا کہ وہ قواعد و ضوابط کی تیاری میں سخت شرائط کو شامل نہ کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ غریب خاندانوں کو فائدہ ہوسکے۔ اس اسکیم کیلئے اضلاع میں اقلیتوں کی آبادی کی بنیاد پر ہر ضلع کیلئے کوٹہ مقرر کیا جائے گا۔ حکومت نے ہر ضلع میں اقلیتوں کیلئے کم از کم دو اقامتی اسکولس کے قیام کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر ضلع میں کم از کم ایک پوسٹ میٹرک ہاسٹل اور ہر ضلع میں ایک اسٹڈی سرکل قائم کرنے کی تجویز ہے۔ سی ای ڈی ایم کے اسٹڈی سرکلس کے تحت مسابقتی امتحانات اور تقررات سے متعلق محکمہ جاتی امتحانات کی کوچنگ دی جائے گی۔ ایمپلائمنٹ و ٹریننگ اسکیم کے تحت پیرا میڈیکل کورسیس کی ٹریننگ کا فیصلہ کیا گیا۔ آئی ٹی آئی سے متعلق مختلف ٹریڈس میں بھی اقلیتی طلبہ کو ٹریننگ دی جائے گی۔ اقلیتی فینانس کارپوریشن کے ذریعہ بینکوں سے مربوط سبسیڈی کی فراہمی سے متعلق اسکیم کے علاوہ غریب اقلیتی خاندانوں کو چھوٹے کاروبار کے حصول کیلئے20تا30ہزار روپئے راست قرض کی فراہمی کی تجویز ہے۔ اس کے لئے تقریباً 80فیصد رقم کارپوریشن بطور سبسیڈی فراہم کرے گا اور مابقی رقم بینک قرض کی صورت میں جاری کرے گا۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کا بھی جائزہ لیا۔ اسپیشل آفیسر وقف بورڈ جلال الدین اکبر نے جائیدادوں کے تحفظ کے سلسلہ میں کئے جارہے اقدامات اور خصوصی ٹاسک فورس کے قیام سے متعلق واقف کرایا۔ محمود علی نے تجویز پیش کی کہ ہر ضلع میں اقلیتی بہبود کے دفاتر کو مستحکم کیا جائے اور ایک ہی دفتر میں تمام متعلقہ اداروں کے عہدیدار موجود رہیں۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے کہا کہ حکومت کے وعدہ کے مطابق اقلیتی بہبود کیلئے 1000کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا جائے گا اور وہ چاہتے ہیں کہ مکمل بجٹ خرچ کیا جائے۔ اسپیشل آفیسر حج کمیٹی پروفیسر ایس اے شکور کی نمائندگی پر ڈپٹی چیف منسٹر نے وزیر فینانس ای راجندر سے ربط قائم کرتے ہوئے حج کمیٹی کے بجٹ کی اجرائی کی خواہش کی۔ وزیر فینانس نے اندرون دو یوم کم از کم ایک کروڑ روپئے جاری کرنے سے اتفاق کیا۔