عیسائی نیم فوجی تنظیموں کیخلاف جنگ چھیڑدینے صدر وسطی افریقہ کا انتباہ

مسلمان جامع مسجد بنگوئی میں پناہ گزین، بیسیوں پڑوسی ممالک فرار ، ’’نسل کشی‘‘ اقوام متحدہ کا تاثر
بنگوئی (وسطی افریقہ) ۔ 14 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) جمہوریہ وسطی افریقہ کی صدر کیتھرین سانباپانزا نے کہا کہ وہ عیسائی نیم فوجی تنظیموں کے خلاف جو مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں ’’جنگ چھیڑ دیں گی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ نیم فوجی تنظیمیں اینٹی بالکا اپنے مقصد کا احساس کھوچکے ہیں اور قاتل اور پرتشدد بن چکے ہیں۔ نیم فوجی تنظیموں کا دعویٰ ہیکہ وہ گذشتہ سال مسلمانوں کے ظلم و ستم کا انتقام لے رہی ہیں۔ لاکھوں مسلمان کیمرون اور چارڈ فرار ہوچکے ہیں اور کئی افراد جمہوریہ وسطی افریقہ کے پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے صورتحال کو ’’نسل کشی‘‘ قرار دیا ہے لیکن صدر کیتھرین سانبا پانزا نے اس دعویٰ کو مسترد کردیا اور تشدد کو ایک ’’صیانتی مسئلہ‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے اپنی اس تقریر میں کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ میں ایک عورت ہوں چنانچہ کمزور ہوں لیکن اینٹی بالکا جو اپنے آپ کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں، ان کا تعاقب کیا جائے گا۔ کئی مسلمان جو تاجر تھے یا غذائی اجناس کے کاروبار میں مصروف تھے، فرار ہوچکے ہیں۔ ان کی غیر حاضری سے غذائی اجناس کی تقسیم کا نظام ٹھپ ہوچکا ہے اور انسانی بحران بدترین حالت میں ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہیکہ بیسیوں گردآلود سڑکیں جو دارالحکومت بنگوئی کی منڈی کی ہیں، سنسان پڑی ہیں۔ واحد شئے گوشت دستیاب ہے اور وہ بھی مقامی طور پر پالتو خنزیروں کا محدود مقدار میں دستیاب ہورہا ہے۔

اقوام متحدہ کے عالمی غذائی پروگرام نے بڑے پیمانے پر ایک ماہ طویل فضائی ذریعہ سے غذائی اجناس وسطی افریقہ کے شہروں میں کیمرون سے روانہ کی ہیں۔ پہلی پرواز چہارشنبہ کے دن پہنچ چکی ہے۔ 1800 ٹن غذائی اجناس سمجھا جاتا ہیکہ آئندہ ہفتوں میں سربراہ کی جائیں گی لیکن عالم غذائی پروگرام کا کہنا ہیکہ اس سے 10 گنا غذائی اجناس کی ضرورت ہے۔ 13 لاکھ افراد جملہ آبادی کا ایک چوتھائی حصہ غذا سے محروم ہے۔ اس صورتحال سے جمہوریہ وسطی افریقہ میں پریشانی کا آغاز ہوچکا ہے جہاں کثیر تعداد میں مسلم سیلیکا باغی گذشتہ سال ملک میں زبردستی داخل ہوگئے تھے۔ انہوں نے مارچ میں حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ایک قائد کو عبوری صدر مقرر کردیا۔ گذشتہ ماہ وہ فرقہ وارانہ تشدد کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے اور مس کیتھرین سانباپانزا کو انتخابات تک ملک کی رہنمائی کیلئے منتخب کیا گیا۔ فرانس اور افریقی ممالک کے تقریباً 7 ہزار فوجی اقوام متحدہ کی جانب سے نظم و ضبط کی بحالی میں مدد کرنے کا اختیار لیکر یہاں پہنچے ہیں لیکن تاحال بے چینی روکنے میں ناکام ہیں۔ بے چینی میں شدت پیدا ہوگئی ہے کیونکہ سیلیکا قائد صدر کے عہدہ سے دستبردار ہوچکے ہیں۔ کئی مسلمانوں کو بے رحمی سے ہلاک کردیا گیا ہے۔ ان کی مسخ شدہ نعشیں دارالحکومت بنگوئی کی سڑکوں پر بے گور و کفن پڑی ہوئی ہیں۔ جمہوریہ وسطی افریقہ سونے، ہیرے اور دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، لیکن برسوں سے جاری بے چینی اور ناقص انتظامات کی وجہ سے بیشتر لوگ غربت کا شکار ہیں۔ غالب مسلم آبادی والے ضلع بنگوئی کی جامع مسجد ہزاروں مسلمانوں کی پناہ گاہ بن گئی ہے جو عیسائیوں کے ہجوم کے تشدد سے بچنے کیلئے فرار ہوکر یہاں پناہ گزین ہیں۔ مسلمانوں پر حملوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جب سے جنوری میں کھیترین سانباپانزا جب صدر جمہوریہ کے عہدہ پر فائز ہوئی ہیں، قاتلانہ حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بنگوئی میں برہم عیسائی کے ایک ہجوم نے دو مسلمانوں کو بری طرح زدوکوب کیا۔ بعدازاں افریقی بحالی امن فوج نے مداخلت کرکے دوسروں کو اس انجام سے بچا لیا۔ جامع مسجد کے باہر گھریلو اشیاء سے لدی ہوئی گاڑیاں چارڈ اور کیمرون جانے کیلئے تیار کھڑی ہیں۔ جمہوریہ وسطی افریقہ سے فرار ہونے والے مسلمانوں کی منزل یہی دونوں ممالک ہیں۔ ڈسمبر 2013ء سے اقوام متحدہ کی تنظیم نے 50 ہزار سے زیادہ جمہوریہ وسطی افریقہ کے شہریوں کا اندراج کیا ہے جو ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔