عیسائی مذہبی رہنماؤں کے اَنوکھے سوالات

اس فقیر نے امریکہ میں حتی المقدور کوشش کی کہ مقامی افراد سے روابط قائم کئے جائیں، ان کو مساجد اور اسلامی مراکز میں مدعو کیا جائے اور ان کی تعلیمی و رفاہی سرگرمیوں میں شرکت کی جائے، تاکہ ان سے قربت ہو اور ان کے روبرو اسلام کی حقیقی تصویر پیش کی جائے، جس سے شکوک و شبہات کا ازالہ ہو، غلط فہمیوں کی برف پگھلے اور بدگمانی کے بادل چھٹ جائیں۔ ۳۰؍ دسمبر ۲۰۱۴ء کو دوبارہ امریکہ پہنچنے کے بعد میں نے پہلے ہی ہفتہ میں مقامی کمیونیٹی کالج میں انگریزی زبان میں تحریری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے بنیادی کورسس میں داخلہ لیا۔ مختصر وقفہ کے بعد اسلامک سنٹر آف گولڈ سبورو میں طلبہ کے مظاہرہ کے زیر عنوان پروگرام ترتیب دے کر وائینے کمیونیٹی کالج کے بیس افراد پر مشتمل ایک وفد کو مدعو کیا۔ دیگر امریکی ملاقاتیوں کو دعوت دی گئی، ظہرانہ کا انتظام کیا گیا، یمنی، فلسطینی، مصری، شامی، سعودی، ہندوستانی اور پاکستانی ڈشش سے ضیافت کی گئی۔ اس پروگرام کا غیر معمولی اثر ہوا۔ کالج میں ہر ایک کی زبان پر اس پروگرام کے چرچے تھے۔ ٹیچرس، پروفیسرس اور اسٹاف ممبرس اسلام اور مسلمانوں سے متعلق معلومات حاصل کرنے میں دلچسپی لیتے نظر آئے۔ اس اثناء میں کالج کے زیر اہتمام انٹرنیشنل فسٹیول کی ذمہ دار خاتون نے مجھ سے ملاقات کی اور کسی وجہ سے پروگرام میں شرکت نہ کرسکنے پر افسوس کا اظہار کیا اور ساتھ ہی کالج کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے انٹرنیشنل فسٹیول میں حصہ لینے کی خواہش کی۔ میں نے اسلامک سنٹر آف گولڈ سبورو کے ذمہ دار افراد سے مشورہ کیا۔ ہر ایک نے اس کو خوش آئند قرار دیا اور بعض افراد نے دلچسپی ظاہر نہیں کی، کیونکہ ان کو اس سے خاطر خواہ نتائج کی توقع نہیں تھی۔ فقیر کی شخصی رائے تھی کہ اس میں حصہ لینا وقت کا اہم تقاضہ ہے، کیونکہ جس وقت ہم نے پہلی مرتبہ کالج کے وفد کو مسجد آنے کی دعوت دی تو وہ پس و پیش کے شکار اور خوف زدہ تھے۔ بار بار یاد دہانی اور افہام و تفہیم کے بعد مخصوص ذمہ دار افراد نے شرکت کی تھی اور انھیں کے توسط سے کالج میں ہمارے پروگرام سے متعلق مثبت رائے عامہ ہموار ہوئی۔

کالج میں ہزارہا طلبہ زیر تعلیم ہیں، سیکڑوں افراد پر مشتمل اسٹاف ہے، طلبہ و اساتذہ کے علاوہ بیرونی افراد کی شرکت متوقع تھی۔ اس فسٹیول میں اسلامی ممالک کے کلچر، تاریخ، زبان، طرز معاشرت، تاریخی مقامات، ملبوسات و مصنوعات، نیز علوم و فنون کو سیکڑوں امریکی عوام کے سامنے پیش کرنے کا سنہرا موقع تھا۔ چنانچہ ہم نے اس بین الاقوامی فسٹیول میں چھ ممالک سعودیہ، مصر، یمن، فلسطین، اردن اور پاکستان کی نمائندگی کی۔ مسلم خواتین نے کافی محنت کی اور بہترین مظاہرہ کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ فسٹیول میں سب کی نظریں مسلم ممالک پر ٹکی ہوئی تھیں، نہایت دوق و شوق سے مقامی امریکی عوام اسلامی ممالک سے متعلق معلومات حاصل کر رہے تھے۔ اس فسٹیول مثبت نتائج برآمد ہوئے، بعد ازاں مقامی افراد نے ربط و ضبط پیدا کرنے اور ان کو اسلامی تہذیب، عادات و اطوار اور تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کرنے اور اس میں امریکی افراد کی قابل لحاظ تعداد کو مدعو کرنے کا پروگرام بنایا۔ نیز طے پایا کہ مقامی چرچس سے روابط پیدا کرکے ان کے پانچ تا دس افراد پر مشتمل وفد کو اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی جائے گی، لیکن آئی ایس آئی ایس کی درندگی کا سارے امریکہ پر خوف چھایا ہوا ہے۔ اس پر مستزاد پیرس کے حملوں نے مزید مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے لئے کٹھن وقت ہے۔ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے لئے مسائل ہیں، لیکن مغربی ممالک کے مسلمانوں کی صورت حال مختلف ہے اور ان کے مسائل مزید سنگین ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں مسلمان مظلوم و محکوم ہونے کے باوجود وہ ہندوستان کے باشندے ہیں۔ ہندوستان ان کا مادر وطن ہے، وہ پیدائشی حق و برتری رکھتے ہیں، اس لئے ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں، وہ ہندوستان میں پردیسی یا مہاجر نہیں ہیں۔ اس کے برخلاف مغربی ممالک کے بیشتر مسلمان مہاجر ہیں، وہ معاشی طورپر پرسکون ہونے کے باوجود غیر ملکی ہیں۔ وہ شہریت حاصل ہونے کے بعد بھی ایک طرح سے پردیسی ہیں۔

ہجرت اور پردیسی کا لباس بظاہر خوشنما و خوش رنگ ہوتا ہے، لیکن وہ اپنے اندر لامتناہی خوف اور اندیشے رکھتا ہے۔ ایسے وقت جب کہ مسلمانوں کے لئے اپنے وطنوں میں عرصہ حیات تنگ ہوچکا ہے، وہ ہجرت پر مجبور ہو گئے ہیں اور مغربی ممالک میں مقیم ہوکر اہل خانہ کی فلاح و بہبود کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں۔ پیرس کے حملوں نے ان کے سامنے عظیم چیلنجس کھڑے کردیئے ہیں، ہر طرف نفرت و غصہ کا ماحول ہے، مسلم خواتین اسلامی لباس میں گھر کے باہر نکلنے سے خوف کھا رہی ہیں اور مائیں اپنی بچیوں کو حجاب ترک کرنے کی تلقین کر رہی ہیں۔ ان حملوں کے پس پردہ عوامل و محرکات ناقابل فہم ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی منظم سازش ہے، اس لئے کہ اس طرح کے عمل سے کسی بھی صورت میں اسلام کو کوئی فائدہ نہیں ہے، لہذا اسلام کے دشمن ہی یہ کام کرسکتے ہیں۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ پڑھے لکھے اور دانشور افراد شکوک و شبہات کا شکار ہوئے اور کھلا ذہن رکھنے والے امریکی بھی سوچنے پر مجبور ہوگئے۔

ربیع الاول میں منعقد ہونے والے پروگرام کو کامیاب بنانے اور امریکی عوام کو راغب کرنے کے لئے میں نے اپنے قریبی دوست Mike Watts سے ربط کیا اور اپنے پروگرام سے واقف کروایا۔ پھر ہم اس جلسہ میں امریکی پاردی Tom Jackson کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر گفتگو کرنے کی دعوت دینے کے لئے اس کے چرچ گئے۔ انھوں نے دعوت قبول کی اور پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے مجھے مقامی پادریوں کی میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی۔ سابق میں بھی میں نے ایک مرتبہ اس میٹنگ میں شرکت کی تھی، جس میں مجھے تلخ تجربہ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایک پادری نے مجھ سے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے متعلق مسلمانوں کے عقیدہ کے بارے میں سوال کیا تھا۔ میرے تفصیلی جواب کے بعد اس نے سوال کیا کہ کیا کہ ’’مسلمان حضرت عیسی علیہ السلام کو نجات دہندہ تسلیم نہیں کرتے؟‘‘۔ نفی میں جواب سننے کے بعد وہ آگ بگولہ ہو گیا اور اپنے غصہ کو چھپا نہ سکا، لیکن ایک پادری نے نہایت سلیقے سے موضوع کو تبدیل کردیا۔ ۲۴؍ نومبر ۲۰۱۵ء کو دوسری مرتبہ اس میٹنگ میں شرکت کا موقع ملا، سب نے میرا استقبال کیا اور Tom Jackson نے میرا تعارف کروایا۔ اسلامک سنٹر آف گولڈ سبورو میں منعقدہ بچوں کے پروگرام میں اپنی شرکت کے غیر معمولی تاثرات کا اظہار کیا۔ یکایک اک خاتون پادری نے کہا: ’’وہ ایک مرتبہ ایک وفد کے ساتھ مسجد گئی تھی، مسجد میں ایک شخص نے اپنی اہلیہ کے کاندھے پر ہاتھ رکھا تو پیچھے سے ایک مسلمان آیا اور ہاتھ ہٹانے کا اشارہ کیا‘‘۔ یہ سنتے ہی سارے شرکائے اجلاس کی نظریں مجھ پر جم گئیں اور وہ تجسس بھرے انداز میں مجھے دیکھنے لگے۔ میں نے ان سے کہا کہ شوہر اگر مسجد میں اپنی اہلیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہے تو از روئے شرع قابل مواخذہ تو نہیں، لیکن یہ اسلامی طریقہ کے منافی ہے اور مسلمان اس کو مسجد کے احترام کے خلاف تصور کرتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اسلام میں خواتین کو مسجد میں آکر جماعت سے نماز ادا کرنے کی پابندی نہیں ہے، کیونکہ جماعت سے نماز پڑھنے کا حکم مردوں کے لئے ہے، خواتین کے لئے نہیں۔ نیز اسلام میں خواتین کے لئے سب سے بہتر نماز ان کے گھر کے اندرونی حصہ میں ہے اور اگر خواتین مسجد آتی بھی ہیں تو ان کے لئے علحدہ ہال ہوتا ہے۔ میاں بیوی کا ایک ساتھ مسجد میں عبادت کرنے کا رواج اسلام میں نہیں ہے، جس طرح عیسائی چرچ میں مرد و خواتین باہم مل کر مراسم بجالاتے ہیں، اس طرح کا عمل اسلام میں نہیں۔ فوری اس نے دوسرے تجربہ کا ذکر کیا کہ مسجد میں داخلہ سے قبل ہم کو اپنے جوتے چپل اتارنے کے لئے کہا گیا، جب کہ ہم میں سے ہر شخص جوتے چپل چوری ہو جانے کا اندیشہ کر رہا تھا۔

اس میٹنگ میں سارے پادری مجھے تذبذب کے شکار نظر آئے، وہ کھل کر مجھ سے آئی ایس آئی ایس یا دہشت گردی سے متعلق پوچھ نہیں پائے، لیکن وقفہ وقفہ سے مختلف سوالات کرتے رہے اور مجھ سے اس بارے میں میرا موقف جانا چاہتے تھے۔ میں نے دہشت گردی کی مذمت کی اور اسلام میں اس کے احکامات پر روشنی ڈالی اور آئی ایس آئی ایس کے بارے میں کہا کہ ۲۰۱۲ء میں میں نے اس کا نام تک نہیں سنا تھا، صرف دو تین سال کے مختصر عرصہ میں یہ چھوٹا گروپ کس طرح اسلام کا نمائندہ ہو سکتا ہے۔ میری بات سے سب نے اتفاق کیا۔ بعد ازاں Tom Jackson نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی ایس نے دیگر مذاہب سے زیادہ مسلمانوں کو تباہ کیا ہے اور اس طرح کا شدت پسند طبقہ ہر ملک اور ہر مذہب میں ہے۔ ایک گھنٹہ طویل گفتگو کے بعد وہ لوگ مطمئن ہوئے اور اپنے چرچوں میں پروگرام کا اعلان کرنے اور ترغیب دینے کا تیقن دیا۔