ذرا سا صبر و تحمل ذرا سا شکر و رضا
مصیبتیں ہیں بڑی، حوصلہ بھی کافی دے
عید کا دن
آج عید الفطر ہے ۔ ہم نے ماہ رمضان المبارک کے سارے مہینے میں روزوں ‘ نمازوں ‘ تلاوت قرآن پاک ‘ تراویح اور دیگر عبادتوں و دعاؤں کا اہتمام کیا ۔ اب رحمتوں ‘ برکتوں اور مغرفتوں والا یہ مہینے ہم سے رخصت ہوچکا ہے اور ہم ایک ماہ کی عبادات کے بعد رب کائنات کے انعام کے طورپر عید منا رہے ہیں۔ ہمیں اس بات کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے ہم نے ماہ رمضان المبارک میں جو طرز زندگی اختیار کیا تھا اور دنیاوی مصروفیات اور تجارت و ملازمت کے باوجود اللہ کی بارگاہ میں رجوع ہونے کیلئے جو وقت نکالا تھا وہ سارا سال نکل سکتا ہے ۔ ہمیں سال بھر تو روزوں کے اہتمام کا حکم نہیں ہے لیکن ہم نمازوں کے پابند ہونے چاہئیں۔ ہم کو یہ حکم ہے کہ روزآنہ پانچ نمازیں ادا کی جائیں۔ رسول اللہ ﷺنے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے اور اللہ رب العزت نے بھی ہر عاقل و بالغ پر نمازوں کو فرض قرار دیا ہے ۔ ایسے میں اللہ کی فرمانبرداری اور رسول اللہ ﷺکی محبت کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم نمازوں کے اسی طرح پابند ہوجائیں جس طرح ہم نے ماہ رمضان میں پابندی اختیار کی تھی ۔ ہماری مساجد آباد تھیں اور ان پر رونقیں آگئی تھیں لیکن اب ماہ رمضان کے بعد ان کو ویران ہونے سے روکنا چاہئے ۔ ماہ رمضان میں ہم نے جس طرح سے غم خواری اور دادرسی کا طریقہ اختیار کیا تھا اسے بھی سال بھر جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔ غریبوں اور پریشان حال افراد کی مدد ‘ یتیموں کا سہارا بننا ‘ بیواؤں کی مدد کرنا اور انہیں آسانیاں فراہم کرنا اسلام کی تعلیمات ہیں اور ان کو ماہ رمضان میں زکواۃ اور صدقات کے ذریعہ ہم نے جاری رکھا تھا اور اسے ماہ رمضان کے بعد بھی جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اس حقیقت کو قبول کرتے ہوئے عمل کرنا چاہئے کہ صدقہ و خیرات سے مال میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ اللہ تبارک و تعالی اس سے ہمیں مزید برکتوں سے نوازتے ہیں۔ ماہ رمضان المبارک نے ہمیں جو ضابطہ حیات دیا تھا اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور یہ ضابطہ حیات صرف کسی ایک مہینے کیلئے نہیں بلکہ ساری زندگی کیلئے ہے اور ہمیں زندگی بھر اس کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔
آج عید الفطر کا دن ہے اور ہم سب اس دن صدقہ فطر تو ادا کرتے ہیں۔ لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے ۔ ہمیں آج اپنے آس پاس ‘ اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب و اپنی بستی و محلہ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ کئی سفید پوش ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو اپنا بھرم رکھنے کیلئے کسی کے آگے دست سوال دراز کرنے سے گریز کرتے ہوں ۔ ہمیں ان کا پتہ چلانے کی ضرورت ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تو اپنی خوشیوں میں مگن رہیںاور ہمارے اپنے یا ہمارے پاس پڑوس میں کوئی ایسا بھی رہ جائے جس کے ہاں چولہا ہی جلنے نہ پائے ۔ ہمارے آس پاس آج بھی ایسے سینکڑوں اور ہزاروں یتیم بچے موجود ہیں۔ ہمیں ان کا سہارا بننے اور ان کے سروں پر ہاتھ رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں انہیں بھی اپنی عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ دیکھنا چاہئے کہ کسی غریب کا گھر عید کی خوشیوں سے محروم نہ رہنے پائے ۔ حالانکہ کئی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے اس سلسلہ میں کام کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن ہمیں بھی اپنی انفرادی ذمہ داریوں سے بچنے کی بجائے انہیں پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ جب ہم غریب اور مفلوک الحال افراد کو ‘ چاہے وہ ہمارے رشتہ دار ہوں یاں غیر ہوں ‘ عید کی خوشیوں میں شامل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو پھر اس سے خود ہماری عید کی خوشیاں دوبالا ہوجائیں گی ۔ ہم میں ایک سرور کی اور اطمینان کی کیفیت پیدا ہوگی جو بے مثال ہوتی ہے ۔
آج عید کے دن ہمیں اس بات کا بھی کرنا چاہئے کہ ہم اپنے والدین ‘ بھائی بہنوں ‘ رشتہ داروں اور دوست احباب کے علاوہ اپنے پڑوس سے بھی اچھا سلوک کرینگے ۔ اگر ایک دوسرے کے تعلق سے دلوں میں کوئی کدورت ہے تو اسے دور کرلیں گے ۔ کوئی آپ کی اس پہل کو کمزوری سمجھتا ہے تو آپ اس کی پرواہ نہ کریں بلکہ خود اخلاق حسنہ کی مثال بن جائیں جس کا اسلام نے حکم دیا ہے ۔ غرض یہ کہ آج عید کا دن محض نئے کپڑوں یا اچھے کھانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہم اس کے حقیقی معنوں پر عمل کرنے لگ جائیں تو عید کی حقیقی خوشیوں سے لطف اندوز ہوسکیں گے اور اپنے آس پاس بھی خوشیاں بکھیرنے میں کامیاب ہونگے ۔