عید مبارک

تم اپنی فکر کو لوگو نئی جہت دینا
یہ قافلہ بھی گزرتا ہوا لگے ہے مجھے
عید مبارک
عالم اسلام ، ہندوستان بالخصوص تلنگانہ کے روزہ داروں کی خدمت میں عید سعید کی مبارکباد جنہوں نے کڑی دھوپ ، شدید گرمی اور اعظم ترین درجہ حرارت میں بھی تقویٰ اور پرہیزگاری کے ذریعہ احکام الٰہی کی تعمیل کی،آج عید کی خوشیاں ان کے حق میںدوبالا ہوجاتی ہیں ۔ ارکان اسلام میں چوتھا رکن روزہ ہے جو اپنی اثر پذیری کی بناء پر نمایاں تر ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کیلئے فی زمانہ اسلام کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے خود کو دیگر ابنائے وطن کے سامنے ایک شاندار مثال پیش کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں اپنا گرویدہ بنانے ،دین اسلام کی طرف راغب کرنے کی جانب کوشش بھی ہونی چاہیئے ۔ اسلام کی تعلیمات بڑی واضح ہیں، یہ معاشرے کا بھی دین ہے اس لئے اس کے احکام کے مطابق انجام دیئے جانے والے اعمال کا انسانی معاشرت پر اثر پڑتا ہے اور اگر عام تعلیمات کی پاسداری رہے تو تعمیر انسانیت کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ آج ہندوستانی مسلمانوں کو موجودہ حالات میں اپنے عمل کے ذریعہ انسانی معاشرہ کی تعمیر کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے والے واقعات رونما کئے جارہے ہیں تو دوسری طرف حکومت کی سطح پر نت نئی پالیسیوں اور خفیہ ایجنڈہ کے ذریعہ ان کے مستقبل کو خطرہ پہنچانے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ ان کھلی اور پوشیدہ کارروائیوں کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں نے بیدار ہونے کا ثبوت نہیں دیا ہے۔ ہندوستان کے علاوہ آج ساری دنیا میں مسلمانوں کے حال اور مستقبل کی فکر رکھنے والوں کا خیال یہی ہے کہ امت مسلمہ کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن ایک ملک، ایک خطہ، ریاست کے مسلمان آپس میں متحد دکھائی نہیں دیتے۔ اندرون ملک مسلمانوںکی خاموشی انہیں حکمرانوں کے سامنے دن بہ دن کمزور کرتی جارہی ہے۔ ساری دنیا میں امت مسلمہ کے بارے میں ایک رائے یہی پائی جاتی ہے کہ انہوں نے آپسی اتحاد پر توجہ دینا ترک کردیا ہے۔ اس لئے آج ہندوستان میں مسلمانوں کو گاؤ کشی کے نام پر اذیت دی جارہی ہے تو دیگر ملکوں جیسے فلسطین، ماینمار، شام، عراق، اردن، افغانستان وغیرہ میں مسلمانوں کے سامنے ہر روز بھیانک مسائل پیدا کئے جارہے ہیں۔ حال ہی میں مکہ مکرمہ میں او آئی سی کی چوٹی کانفرنس میں منظورہ قرارداد میں بھی امت مسلمہ کے اتحاد پر زور دیا گیا مگر او آئی سی کے تمام ممالک میں بھی اتحاد کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ایسے میں اسلام شمن طاقتوں کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ اسلام اور مسلمان دونوں کو ہر محاذ پر کمزور کرنے کی کوشش کریں۔ مسلمانوں کو ترقی و خوشحالی اور جدید دور کے تقاضوں سے آراستہ کرنے کی باتیں کرنے والے حکمرانوں، مسلم دنیا کے سربراہوں اور سعودی عرب کے تخت شاہی پر بیٹھے بادشاہوں نے امت مسلمہ کو متحد کرنے کی کوشش بھی کی ہے تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ان کی کوششیں یا تو اتنی محدود تھیں کہ مسلمانوں تک یہ بات پہنچ نہیں سکی۔ امت مسلمہ کی موجودہ خرابی کی وجوہات کئی ہیں ان میں سے ایک اصل وجہ تعلیم کی کمی ہے، جو قوم تعلیم میں پیچھے رہ جاتی ہے وہ اقوام عالم میں اپنا مقام نہیں بناسکتی۔ ایک زمانہ تھا کہ مسلم اور عرب علما نے سائینس اور طب کے میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیئے جسے آج بھی مغربی دنیا اپنی ناپاک کوششوں کے باوجود فراموش نہیں کرسکی۔ ابن سینا کی طبی تصنیف ’’قانون ‘‘ جسے انگریزی میں’’ کنین ‘‘ لکھا جاتا ہے آج بھی میڈیکل لائریریوں کے ریفرنس سیکشن میں شامل ہوتی ہے۔ اسی طرح کی کئی مثالیں ہیں ہمارے آباء و اجداد نے علم و حکمت سے سرخروئی پائی اور آج کی مسلم نسل آسان نرم گدوں اور اے سی میں بیٹھے تن آسانی کا شکار ہوکر واٹس ایپ اور دیگر فضول کاموں میں مصروف ہے۔ واٹس ایپ ، انٹرنیٹ اور گوگل کو ہی بطور حوالہ سمجھا جانے لگا ۔کتابوں سے دوری نے نوجوان نسل کو زیور تعلیم سے دور کردیا ہے۔ رمضان کے تمام تینوں عشروں میں ائمہ کرام، خطیب صاحبان نے مسلمانوں کی نوجوان نسل کو اس لعنت کی جانب بارہا توجہ دلائی ہے۔ والدین کو بھی تلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور گمراہی سے بچائیں۔ آج عید سعید کے موقع پر آیئے ہم دعا کریں کہ ہمارے نوجوانوں اور بچوں کو تعلیم کی جانب لاکر کامیاب انسان بنانے کی کوشش کریں۔ طلبہ اور معاشرے کے ہر فرد پر زور دیتے ہیں کہ علم حاصل کرو گود سے لے گورتک۔ بامقصد تعلیم اور دین پر عمل کرتے ہوئے ہی امت مسلمہ کا ہر فرد ہر چیلنج کا مقابلہ کرسکتا ہے اور سازشوں کو ناکام بناسکتا ہے۔