عید الفطر کے موقع پر آج عالم اسلام کو مبارکباد پیش کرنے کے بعد مسلمانوں خاص کر ہندوستانی مسلمانوں کے موجودہ حالات کو اگر علامہ اقبال کے خیال کے مطابق جب ملت مرحوم کا شیرازہ ابتر ہوجائے تو اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے۔ مسلمانوں کو دوسروں سے زیادہ اپنوں سے نقصان پہونچا ہے۔ اس وقت دہشت گردی کو اسلامی شکل دے کر اپنوں نے ہی اسلام کے نام پر تباہی مچائی ہے۔ سعودی عرب میں دہشت گرد حملوں نے جس جہاد کے ذریعہ اسلام کو بدنام کیا ہے اس کے بہر وپیوں نے جہاد کو فساد بناڈالا ہے۔ اسلامی جہاد نے دنیائے عرب و عجم کو امن عطا کیا تھا مگر جہاد کے موجودہ علمبرداروں نے اپنے ناپاک مقاصد کا فساد برپا کرکے انسانیت کو سرفتار کرنا شروع کیا ہے۔ دہشت گردی کا سب سے زیادہ اور پہلا شکار مسلمان ہی بنتے ہیں جس کی مثالیں آج ساری دنیا میں ہونے والے دہش گرد واقعات سے لی جاسکتی ہے۔ جہاں دہشت گردوں نے صرف مسلم ملکوں اور مسلمانوں کو جب شدید نقصان پہونچایا ہے نام نہاد جہادی تنظیموں کے اصل عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اس کے باوجود مسلم دشمن طاقتیں انہی نام نہاد جہادی تنظیموں کے سہارے اپنے مخالف اسلام و مسلمان پروپگنڈہ کو پھیلاتے جارہے ہیں۔
اس وقت ساری دنیا کی سب سے بڑی طاقتیں مسلم ممالک کو کمزور کرنے اور ان کے قیمتی قدرتی وسائل کو لوٹنے اور اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے کوشاں ہیں تو ہندوستان میں حکمراں فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کو کمزور کرنے ان کی ترقی کو مفقود کرنے اور انہیں ختم کرنے کی گھنائونی سازش پر عمل پیرا ہیں۔ موجودہ دور میں عالم اسلام کو درپیش مسائل کی وجوہات پر رمضان المبارک کے دوران ہر مسجد میں مقررین اور ائمہ کرام نے مسلمانوں کو یہی تلقین کی کہ وہ قرآن مجید کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ پر عمل کریں۔ رمضان المبارک کے مقدس ماہ کے شب و روز کے دوران مسلمانوں کی اکثریت عبادتوں اور نیک کاموں میں مصروف رہتی ہے لیکن رمضان المبارک اور عید الفطر کے فوری بعد مساجد مصلیوں سے خالی نظر آتی ہیں۔ عبادتوں اور نیکیوں کا عمل یکلخت رک جاتا ہے۔ جن مسلمانوں نے رمضان المبارک کے روزے رکھے، عبادتیں کیں اور زکوٰۃ و صدقات کو ادا کرنے کے لئے شرعی امور کی پابندی کی وہی مسلمان جب بعد رمضان ایک آزاد اور بے ہودہ معاشرہ کا رکن ہونے کا ثبوت دینے والے عوامل میں مبتلا ہوتا ہے تو پھر اسلام اور مسلمانوں کی ساری زندگی کئی مسائل و مصائب کا شکار ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے مسلمانوں کو نیک ہدایات دی کہ شیطانی طاقتوں سے بچنے کا ان کے اندر حوصلہ اور جذبہ ہے۔ روزہ اس جذبہ اور حوصلہ کو جلا بخشتا ہے۔ ایسا عمل کرنے کے لئے دل مائل ہوتا ہے کہ اس سے انسانیت کی بہتر سے بہتر خدمت ہوسکے۔
اسلام دشمن طاقتوں کو یہ ہرگز پسند نہیں کہ مسلمان اپنے دین سے اٹوٹ طور پر وابستہ ہوجائیں۔ فتنہ فساد پرپا کرنے کے لئے نئے نئے ہتھکنڈے اختیار کرنا ان کی پالیسیوں کا حصہ ہے۔ کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود اگر مسلمانوں کی اکثریت مسلم و اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں سے بچنے کی کوشش نہیں کرتی ہے تو قرآن و سنت پر عمل کرنے اور قرآن کی ہر آیت میں اپنی زندگی تلاش کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے اسلام دشمن طاقتوں کے پھیلائے گئے جال میں پھنسنے والی حرکتیں کرتی ہیں۔ جدید ٹکنالوجی نے آج کے مسلم معاشرہ پر منفی اثرات مرتب کرنے شروع کئے ہیں۔ اس طرح کے لغویات سے بچنے اور رمضان المبارک کے روزوں کے ذریعہ تزکیہ نفس کرتے ہوئے اپنی روح کو پاکیزہ بنانے کی کوشش کی گئی، اس کو محفوظ رکھنا ہر مومن کی ذمہ داری ہے۔ افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ عالم اسلام اور مسلمانوں کی اکثریت قرآن مجید کی شکل میں مکمل ضابطہ حیات موجود ہونے کے باوجود اس سے دور ہیں۔ بلاشبہ مسلمان بھی انسان ہیں اور ان سے شعوری اور غیر شعوری طور پر کوتاہیاں ہوتی ہیں لیکن ان کوتاہیوں کو عادت بنالینے اور اس کو بار بار دہرانے کی وجہ سے ہی اسلام دشمن طاقتوں کا آسانی سے شکار ہوتے ہیں۔ دشمن طاقتوں سے بچنا اور دین اسلام کو ، تبلیغ کو اپنی زندگیوں کا اہم کام سمجھنا ایک حقیقت ہے لیکن اس حقیقت سے منہ موڑ لینے کی وجہ سے دہشت گردی کی شکل میں ایک بھیانک سایہ ان کا تعاقب کرتا رہا ہے۔ آئیے اس عید سعید کے موقع پر یہ عہد کریں کہ ہم قرآن مجید کی ہر آیت ہر لفظ میں اپنی دینی زندگی کو تلاش کریں اور اس کے مطابق خود کو تیار کریں۔