عیدالاضحی کی حقیقت اوراس کا پیغام

پروفیسر اختر الواسع
حج کے لغوی معنی ارادہ کرنے اور قصد کرنے کے آتے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں خاص دنوں میں بیت اللہ کی زیارت اور وہاں کچھ عبادات کے انجام دینے کا نام حج ہے۔ اب حج اپنے لغوی معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اصطلاحی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ حج ایک عبادت ہے۔ اور اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔ یہ اگرچہ عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ فرض ہوتی ہے اور صرف ایسے امیروں پر فرض ہوتی ہے جو سفر حج کے اخراجات برداشت کرسکیں اور اپنے زیر کفالت لوگوں کی کفالت کا انتظام کر سکیں اور پھر بیت اللہ تک جا بھی سکیں۔ لیکن فرض اسی طرح ہوتی ہے جس طرح اپنے وقت پر نماز یا دیگر فرض عبادتیں، حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر کوئی حج کرسکتا ہو اور پھر حج نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور بھی متعدد روایات ہیں جن سے اندازہ ہوتاہے کہ جو حج کرسکتا ہو اس کے لیے حج ادا کرنا ضروری ہے، لازمی ہے۔ حج اس کے لیے ہے جو بیت اللہ تک جا نے کی استطاعت رکھتا ہو

لیکن عیدالاضحی سارے مسلمانوں کے لیے ہے یہ مسلمانوں کا تیو ہار ہے جو سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں منایا جاتاہے اور اس موقع پر اس عظیم قربانی کی یاد میں قربانی کی جا تی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دی تھی۔ حج اور قربانی خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ سے سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے۔ سوال کرنے والے نے پوچھا کہ اس میں ہمارے لیے کیا ہے آپ نے جواب دیا کہ تمہیں قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی (ابن ماجہ)۔ اور ہم نے ہر قوم کے لیے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تا کہ وہ ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں(حج:۳۴) جو اللہ نے انھیں دے رکھے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قربانی اسلام میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔بلکہ یہ بہت سی دوسری دینی عبادات ورسوم کی طرح پہلی امتوں کی زندگیوں میں بھی شامل رہی ہے۔ اسلام نے بھی انسان کے اس فطری جذبہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے قربانی شروع کی اور اس قربانی کو حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے ایثار و فدائیت اور جاں نثاری کے واقعے سے جوڑ کر اسے قیامت تک آنے والی انسانی نسلوں کے لیے ایک قابل تقلید نمونے کی حیثیت دے دی ۔ حضرت ابراہیم کا کردار اوراسوہ ایک ایسے مرد مومن کا اسوہ ہے جو خدا کی راہ میں خدا کے حکم سے اپنی زندگی کی ہر متاع بے بہا کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ خواہ اس کی زندگی کا سب سے مضبوط اور آخری سہارا اس کا جگر پارہ ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت ابراہیم کے اس جذبہ قربانی کا سرچشمہ ان کا ایمان تھا جو توحید خالص پر مبنی تھا۔ حضرت ابراہیم ایسے ماحول میں پیدا ہوئے جہاں ہر طرف شرک و بت پرستی کا دور دورہ تھا۔ کائنات کے مظاہرنے معبودوں کی جگہ لے لی تھی۔ ان معبودوں کے خلاف لب کشائی عوام اور حکمراں دونوں کی نظر میں موجود سیاسی و سماجی نظام سے بغاوت کے ہم معنی تھی، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسے ماحول میں نہ صرف توحید کا نعرہ بلند کیا بلکہ اپنی زندگی کو سراپا توحید کے قالب میں ڈھال کر ایک عظیم مثال قائم کردی۔ معبودان باطل کے سامنے توحید خالص کا اثبات آسان نہیں تھا مشرکوں نے ان کو سخت سزا دینے کا ارادہ کیا ، ان کو آگ میں ڈالا گیا لیا لیکن وہ ثابت قدم رہے پھر اللہ کی راہ میں ہجرت کی او رپیرانہ سالی میں ایک بیٹا پیدا ہوا تھا تو اس کو قربان کرنے کا حکم آگیا۔ ان لگاتار آزمائشوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہمیشہ ثابت قدم رہے بیٹے کو بھی قربان کرنے پر تیار ہوگئے اور سعادت مند بیٹا بھی اپنی جان دینے کے لیے تیار ہوگیا۔ قربانی کے اس واقعے میں ابراہیم خلیل اللہ کے ساتھ اسماعیل ذبیح اللہ کا کردار لوح تاریخ پر کندہ ایسا تابناک نقش ہے، جو کبھی مٹ نہیں سکتا اور نہ ہی ایسی کوئی دوسری نظیر تاریخ پیش کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ حضرت اسماعیل یعنی تسلیم و رضا کا پیکر، جس کی جبین اطاعت اس وقت بھی شکن آلود نہیں ہوئی جب خود اس کا باپ اس کی گردن پر چھری چلا رہا تھا۔ حضرت اسماعیل کو یہ آداب فرزندی و بندگی کس نے سکھائی؟ یہ حضرت ابراہیم کی نبوی تعلیم و تربیت کا کرشمہ تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائشوں کا صلہ اس شکل میں سامنے آیا کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا امام بنا دیا۔ قرآن کہتا ہے: ’’ جب ابراہیم علیہ السلام کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انھوں نے سب کو پورا کردیا تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا‘‘۔ (البقرہ: ۱۲۴)

عیدالاضحی دراصل ابراہیمی کردار کی تجدید کے عہد سے عبارت ہے۔ اللہ کو محض جانوروں کی قربانی مطلوب نہیں ہے۔ جانوروں کی قربانی فی الحقیقت ایک علامتی قربانی ہے۔ اصل قربانی تو وہ ہے جو انسان اپنی حسن نیت اور جذبۂ عمل کی بنیاد پر پیش کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ تک ان قربانیوں کا نہ گوشت پہنچتا ہے

اور نہ ہی خون، اس تک جو کچھ پہنچتا ہے وہ صرف تمہارا تقویٰ اور دل کی نیکی ہے۔ (الحج) عیدالاضحی خدا ترسی اور رشتوں کے پاس و لحاظ کا سبق بھی یاد دلاتی ہے کیونکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ کی نافرمانی سے بچو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کا پاس و لحاظ رکھو‘‘۔ اس لیے عیدالاضحی کی نماز دوگانہ ادا کرکے لوگ اپنے اعزا واقارب سے گلے ملتے ہیں تاکہ نفرت و کدورت کی سیاہی کو اخلاص و محبت کے عمل سے دھو ڈالیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ قربانی کے گوشت میں تین حصے رکھے گئے ہیں: ایک اپنے استعمال کے لیے، ایک اعزا و اقارب اور دوستوں کے لیے اور ایک غریب و نادار لوگوں میں تقسیم کرنے کے لیے۔ اسی طرح عیدالاضحی اپنے رب کی خوشنودی کے حصول، انسانی رشتوں کی مثبت بنیادوں پر تعمیر کا بھی ایک نادر موقع ہے۔ یہ پیغمبروں کی سنت کا اعلان بھی ہے اور اپنے رب کے حضور سب کچھ نذر کردینے کا اعلان بھی۔ بہرحال عیدالاضحی کا دن ہمارے لیے عہد کا دن ہے۔ ہمیں عہد کرنا چاہئے کہ ہم اللہ کی راہ میں ہر وہ قربانی پیش کرنے کے لیے تیار رہیں، جس کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے اور دعوت اسلامی کی روح جس کا ہم سے مطالبہ کرتی ہے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلام کے فکری غلبے

اور پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام امن کو دنیا میں عام کرنے کے لیے ہم آگے آئیں۔ اپنے نفس کے شیاطین کو، جو ہمیں قربانی کے راستے سے منحرف کرنے کے لیے کوشاں ہیں، کنکری مار کر دور بھگا دیں اور خود کو اس آیت کی عملی تصویر بنا لیںکہ: ’’میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، یکسو ہوکر، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔ (الانعام: ۷۹)