عورتوں کی خواہش پر شادیوں میں اسراف و ریاکاری آخر کب تک ؟

حیدرآباد ۔ 6 ۔ فروری : حیدرآبادی مسلمانوں میں شادی بیاہ میں اسراف اور فضول خرچی کی بیماری اس قدر زور پکڑتی جارہی ہے کہ ان شادیوں میں کئے گئے اخراجات کے نتیجہ میں لڑکے اور لڑکی والوں کے ماں باپ اور ذمہ داروں میں قرض کی ادائیگی کو لے کر بلڈپریشر ، شوگر اور ذہنی دباؤ کے امراض جنم لے رہے ہیں ۔ مسلم معاشرہ میں ہونے والی شادیوں اور ان میں کئے جارہے بیجا اسراف کے ساتھ ساتھ انواع و اقسام کے ڈشس ، ہزاروں لاکھوں روپیہ کے اسٹیج اور دیگر بیجا رسومات بالخصوص گانا بجانا ، اگر کوئی دیکھ لے تو وہ ہرگز یہ نہیں مانے گا کہ مسلمان ہندوستان میں سب سے زیادہ پسماندہ ہیں ۔ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی پسماندگی کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا لیکن اس شخص کو یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ ان شادیوں میں جو خرچ کیا گیا ، کھانے کی میزوں پر جو قسم قسم کی لذیذ ڈشس سجائی گئیں ، وسیع و عریض شادی خانہ میں دولہا دلہن کے لیے ہزاروں اور لاکھوں روپیوں کے مصارف سے جو شہ نشین نصب کئے گئے ہیں وہ دراصل کسی سود خور سے بھاری شرح سود پر حاصل کردہ رقم کا نتیجہ ہے یا پھر ریاکاری ۔ قارئین ۔ آج مسلم معاشرہ کی شادی بیاہ کی تقاریب میں انواع و اقسام کی ڈشس رکھنا عام ہوگیا ہے بلکہ اسے سماج میں عزت و وقار کی علامت سمجھا جارہا ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے جب کہ ہمارے نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ’ نکاح کو آسان اور زنا کو مشکل بناؤ ‘ ۔ اس کے باوجود گھر کی عورتیں شادیوں میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی مردوں کو ترغیب دیتی ہیں تو افسوس کہ مرد حضرات اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے رسول ﷺ کے پاک ارشاد کو بھول جاتے ہیں ۔ آج کل خوشحال اور متوسط خاندانوں کی شادیوں میں یہی دیکھا جارہا ہے کہ خواتین کے اصرار پر مرد حضرات اسراف کررہے ہیں ۔ اکثر خواتین شادی بیاہ کے موقع پر طعام اور شادی خانہ کی بات آتی ہے یا کپڑوں کے خریدنے کا مرحلہ آتا ہے تو یہی کہتی سنائی دیتی ہیں کہ خاندان میں فلاں بھائی فلاں بہن ماموں خالہ وغیرہ کے بچوں کی شادیوں میں ان لوگوں نے جو قسم قسم کے پکوان کئے تھے

اسے ہم فراموش نہیں کرسکتے ۔ ایسے میں ہمیں بھی اسی طرح بلکہ اس سے لذیذ پکوان کا اہتمام کرنا چاہئے تب ہی تو خاندان میں ہم اپنی بیٹے یا بیٹی کی شادی کو یادگار بناسکتے ہیں ۔ خواتین کے اس طرح کے عجیب و غریب دلائل کا مرد حضرات پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ سر کے بل چلتے ہوئے نہ صرف مہنگا شادی خانہ بک کرادیتے ہیں بلکہ اپنے کسی دوست کے قریبی باورچی کو طلب کر کے شاہی انداز میں اس طرح کھانوں کی فہرست تیار کرواتے ہیں جیسے حال حال تک دکن میں ان کی ہی حکومت رہی ہو ۔ جھوٹی عزت اور نام و نمود کے لیے شادیوں میں اپنے مردوں سے زیادہ سے زیادہ خرچ کروانے والی ان خواتین کو پتہ نہیں کہ ان کے گھر کے قریب واقع جھونپڑیوں اور کچے مکانات میں ایسی درجنوں لڑکیاں صرف اور صرف شادی کے انتظار میں اس لیے بوڑھی ہورہی ہیں کیوں کہ ان کے ضعیف باپ کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کرسکے ۔ ان خواتین کو اس بات کا بھی قطعی اندازہ نہیں کہ ان ہی کے گھر کے قریب اور خاندان میں ایسے غریبوں کی کوئی کمی نہیں جو دو وقت کی روٹی کے لیے ، دردر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں ۔ اس طرح کی خواتین کو اس بات کا قطعی احساس نہیں کہ وہ تو گھر میں اپنے بیٹا بیٹی کی شادیوں میں خوشیاں منارہی ہیں جب کہ ان کے گھر کے قریب ہی اس بوڑھے باپ اور ضعیف ماں کے جنازے اٹھ رہے ہیں ۔ جنہوں نے اپنی آخری سانس تک یہی دعا کی تھی کہ یا رب ہماری جوان بیٹی کی شادی کردے ۔ شادیوں میں بیجا اسراف کرنے پر اکسانے والی خواتین اور ان کی باتوں پر بلاچوں و چراں علا الدین کے جن کی طرح سر ہلانے والے مردوں کو شہر کے ان کمیونٹی ہالوں کا دورہ کرنا چاہئے جہاں ماہانہ صرف دو سو روپئے وظیفہ حاصل کرنے 70 تا 80 سال کے ضعیف مرد و خواتین ، عین جوانی میں بیوہ ہونے والی بیوائیں اور زندگی کا ہر لمحہ مجبور و بے بسی میں گذارنے والے معذورین ، امڈ پڑتے ہیں ۔ اگر وہ ان بے بس و مجبور انسانوں کی حالت زار دیکھ لیں تو ہمیں یقین ہے کہ درد کے مارے نہیں تو کم از کم شرم کے مارے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجائیں گے ۔

ایک بزرگ شہری نے اچھی بات کہی کہ دولت مندوں اور متوسط خاندانوں کو شادی بیاہ میں زیادہ سے زیادہ ڈشس رکھتے ہوئے اپنی دولت کی نمائش کرنے کی بجائے ملت کے غریبوں کی مدد کرنی چاہئے ۔ مسلمانوں کو اپنی محنت کی کمائی اس طرح تباہ و برباد کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ ہمارے خاندانوں کا انجام بھی ان لوگوں کی طرح ہوگا جنہوں نے وقت و دولت اور مواقع کی قدر نہیں کی ۔ آپ کو بتائیں کہ ہمیں ایک ایسی شادی میں جانے کا اتفاق ہوا جس میں ایک نہیں دو نہیں بلکہ 75 ڈشس رکھی گئی تھیں ۔ جب کہ ایک ایسے صاحب کی شادی میں بھی جانے کا موقع ملا جو ملت کی فلاح کی باتیں بہت کرتے تھے لیکن عملی طور پر وہ فضول خرچی میں سب سے آگے نکل گئے ۔ ہاں ہمیں 31 جنوری کو ایک ایسی شادی میں شرکت کا موقع ملا جس میں دولہے والوں کے اصرار پر دولہن والوں نے صرف چائے سے مہمانوں کی تواضع کی ۔ اس طرح مسجد عالیہ میں بھی ایک ایسی شادی انجام پائی جس میں کھجوروں سے مہمانوں کی تواضع کی گئی ۔ نوشہ مسجد میں نکاح کے بعد دولہن کو لیے مسجد سے اپنے گھر روانہ ہوگئے ۔ بہر حال ہمارے معاشرہ میں تبدیلی کی سخت ضرورت ہے ۔۔