حیدرآباد ۔ 29 ۔ جنوری : ( سیاست نیوز) : جی ایچ ایم سی انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتیں عوام سے بلند بانگ دعوے کررہے ہیں ۔ شہر کو ترقی دینے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔ ٹی آر ایس ، کانگریس نے خاص طور پر اولڈ سٹی کو گولڈ سٹی بنانے کا اعلان کیا ہے ۔ جب کہ بی جے پی ، تلگو دیشم اتحاد نے اپنے ویژن ڈاکومنٹس میں پرانے شہر یا اقلیتوں کا حوالہ نہیں دیا ۔ شہر کی ترقی کے سب سے زیادہ دعوے مجلس اور اس کے قائدین کررہے ہیں ۔ مجلسی قائدین تاریخی آثار کے تحفظ کو یقینی بنانے کے وعدے کررہے ہیں ۔ پرانا شہر میں بلدی سہولتوں کی فراہمی کا یقین دلایا جارہا ہے لیکن اب عوام ان سے سوال کرنے لگی ہے کہ آپ نے بلدیہ پر برسوں اقتدار میں رہنے کے باوجود شہر حیدرآباد کے اس تاریخی حصہ کو جو حقیقت میں حیدرآباد کی پہچان اس کا وقار ہے کیوں نظر انداز کیا ؟ عوام اب یہ بھی سوال کرنے لگی ہے کہ شہر کی ترقی سے اگر آپ کو اتنی ہی دلچسپی ہے تو پھر پرانا شہر میں میٹرو ٹرین کی آپ مخالفت کیوں کررہے ہیں ؟ عوام یہ بھی استفسار کررہی ہے کہ میٹرو ٹرین کی مخالفت کی وجہ کیا ہے ؟ آپ لوگ عوامی مفادات پر اپنے شخصی مفادات کو ترجیح کیوں دے رہے ہیں ؟ مجلسی قائدین کے دعوؤں پر عوام کا شدید ردعمل سامنے آرہا ہے ۔ پرانا شہر کے رائے دہندے اب قائدین سے یہ بھی پوچھنے لگے ہیں کہ وہ آخر کس بنیاد پر مسلمانوں کو ملازمتوں اور تعلیمی شعبہ میں 12 فیصد تحفظات کی مخالفت کیوں کررہے ہیں ؟ پرانا شہر کی ترقی کے دعوے کرنے والے مجلسی قائدین سے لوگ اب بلا خوف و خطر یہ بھی پوچھنے لگے ہیں کہ شہر کے تالاب ، خوبصورت جھیلیں ، اسکولس کی وسیع و عریض عمارتیں اور کھیل کے میدانوں کے علاوہ پارکس کہاں گئے ؟ انہیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا یا پھر لینڈ گرابرس نے ہضم کرلیا ؟ شہر کے ہر ڈیویژن میں عوام کے ذہنوں میں کئی سوالات ابھر رہے ہیں ۔ ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ ووٹ مانگنے والے یہ قائدین صرف انتخابات کے دوران دکھائی دیتے ہیں لیکن بلدیہ جب غریب شہریوں کو بستیوں کو مسمار کرتی ہے ۔ محکمہ بجلی کے عہدیدار مسلم بستیوں پر دھاوا کرتے ہیں ۔ پولیس بے قصور نوجوانوں کو گرفتار کرتی ہے تو ان قائدین کے فون بند ہوجاتے ہیں ۔ فونس کی طرح ان کے گھروں کے دروازے بھی ضرورت مند عوام کیلئے بند کردئیے جاتے ہیں ۔ آخر کیوں ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو شائد شہر کی ترقی کے بلند بانگ دعوے کرنے والے مجلسی قائدین کے پاس ان کے جوابات نہیں ۔۔