عوام کی اکثریت اور بی جے پی

وہ جن کا شہر ہے کرتے ہیں جو مسیحائی
بہت سے لوگ ہیں بیمار ہاتھ میں اُن کے
عوام کی اکثریت اور بی جے پی
ہندوستانی عوام نے 2014 کے عام انتخابات میں نریندر مودی کو وزیر اعظم کی حیثیت سے پوری پسندیدگی کے ساتھ منتخب کیا تھا یا اس کھیل میں کچھ چالاکیاں ہوئی تھیں ۔ عوام کی توقعات کو پورا کرنے میں ناکام دکھائی دینے والی بی جے پی قیادت پھر ایک بار 2019 کے عام انتخابات کی تیاری ابھی سے شروع کردی ہے ۔ اس سے پہلے گجرات اور دیگر ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی پر ہی عام انتخابات میں پارٹی کی ساکھ و مقبولیت کا اندازہ ہوجائے گا ۔ فی الحال نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے ملک کی میعیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود عوام کی اکثریت بی جے پی کو ووٹ دینے میں کوئی غور و فکر نہیں کرے گی تو عوام کے توقعات اور امیدیں جوں کا توں معلق رہیں گی ۔ ہندوستانیوں کی اکثریت کے سامنے کانگریس کی برسوں پرانی سیاسی زندگی بھی مایوس کن رہی ہے ۔ ملک کے عوام کو ٹھگ لینے کے واقعات کے بعد عوام میں یہ احساس جاگا کہ گذشتہ 6 دہوں کی طویل خاندانی حکمرانی کے باوجود کانگریس نے بنیادی فرائض بھی انجام نہیں دئیے تھے ۔ کانگریس کی غلط حکمرانی کی وجہ سے ہی ہندوستان کے تعلیم یافتہ ، ذہین بیرون ملک منتقل ہوگئے اور جو کچھ ذہین لوگ ہندوستان میں رہ گئے وہ بہتر مستقبل اور مواقع کا انتظار ہی کرتے رہے ۔ اس لیے کانگریس کے متبادل کے طور پر جب بی جے پی کو سیاسی قوت حاصل ہونے لگی تو عوام نے اپنی قسمت آزمانے کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بی جے پی کو توقع سے زیادہ کامیاب بنایا ۔ اس کامیابی کے نشہ میں بی جے پی قائدین نے آئندہ عام انتخابات 2019 کے لیے پارٹی کے نشستوں کا نشانہ بھی مقرر کرلیا ہے ۔ 450 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کا عزم کرتے ہوئے پارٹی نے ابھی سے ہر ریاست میں کامیابی کی لہر کا فائدہ اٹھانے کی کوشش شروع کی ہے ۔ گذشتہ 70 سال کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ عوام نے کانگریس کو بری طرح مسترد کردیا ہے ۔ عوام کی شدید تنقیدوں کا سامنا کرنے کے باوجود کانگریس نے گذشتہ 3 سال کے دوران اپنا سیاسی محاسبہ کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ ہندوستان کے عوام کی اکثریت اب نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ ضعیف اور عمر رسیدہ افراد کی تائید کے ساتھ کانگریس کو اقتدار کے مزے حاصل ہوتے رہے تھے لیکن بی جے پی نے ملک کے نوجوانوں میں امید کی کرن اور کانگریس دور کی مایوسیوں کو دور کرنے کی کوشش اور اس میں وہ کسی قدر کامیاب بھی ہوئی اب وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی 2019 کے مشن کو موثر بنانے کے لیے گھر گھر برقی کا پروگرام تیار کیا ہے ۔ اگرچیکہ ملک کی معیشت جھکولے کھا رہی ہے اس حقیقت سے عوام کو دور رکھنے میں بی جے پی کی حکمت عملی کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔ نوٹ بندی نے عوام کی اکثریت کو پریشان کیا ہے اور جی ایس ٹی نے مارکٹ کی رونق ہی چھین لی ہے ۔اس کے باوجود بی جے پی نے طویل حکمرانی کا مرحلہ شروع کردیا ہے ۔ ایسے میں ہندوستانی عوام کے سامنے غیر متوازن صورتحال موجود ہے تو انہیں ووٹ دینے اور اپنے لیڈر کو دوبارہ منتخب کرنے میں کوئی تذبذب کا شکار ہونا نہیں پڑے گا ۔ سوال یہ ہے کہ آیا حکومت اپنے فرائض اور وعدوں کو پورا کیے بغیر آئندہ کی حکمرانی کی تیاری کو یقینی بنانے کی کس طرح کوشش کرسکتی ہے ۔ ملک میں معاشی اصلاحات کے نام پر نوٹ بندی کی گئی لیکن اس سے وزیراعظم نے عوام کی توقعات کو پورا نہیں کیا اور نہ ہی کالا دھن سامنے آیا ہے ۔ وزیراعظم نے اپنے ارکان پارلیمنٹ کے سامنے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ 2019 کے عام انتخابات سے قبل اپنی پانچ سالہ حکمرانی کا رپورٹ کارڈ پیش کریں گے لیکن وہ اپنے اس وعدہ کو پورا کرنے میں کس قدر کامیاب ہوں گے ۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ غور طلب امر یہ ہے کہ غیر متنازعہ طریقہ سے نریندر مودی نے حکمرانی کا کام انجام دینا شروع کیا ہے اور عوام میں یہ احساس پایا جارہا ہے کہ دیانتدارانہ اور ایماندارانہ طریقہ سے حکومت کی جائے تو ووٹ کا حق بھی حاصل ہوجاتا ہے ۔ نتائج کے حصول کے لیے اگر حکومت اور حکمراں طبقہ کے لوگ اعلیٰ سطح پر کام کرتے ہیں تو ترقی کی بلندیاں خود بخود نمودار ہوتی ہیں ۔ لیکن ملک کی پیداوار کی شرح میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ۔ اس ساری تگ و دو کے باوجود یوپی اے کی دوسرے مرحلہ کی حکمرانی میں معاشی پیداوار کی شرح 7.1 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی اب این ڈی اے حکومت کی پہلے 3 سال میں یہ شرح 7.0 فیصد سے کم ہی رہی ۔ لیکن معاشی تجزیہ کاروں نے ملک کی معاشی پیداوار کی شرح کو صرف 5 فیصد کے آس پاس ہی بتایا ہے ۔ اس تلخ حقیقت کے ساتھ نریندر مودی حکومت عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوتی ہے تو پھر ہندوستانی عوام کی اکثریت اپنے ووٹ کے فیصلے کے ذریعہ صرف حکمرانی کو طاقتور بنانے میں اہم رول ادا کرے گی ۔ ملک کے حق میں ان کا فیصلہ درست ہوگا یا نہیں یہ تو آئندہ کی حکمرانی پر ہی پتہ چلے گا ۔ ہندوستانی سرزمین پر سیاسی جبر اور عوامی صبر کی کہانی بہت پرانی ہے اور یہ کہانی بار بار دہرائی جاتی رہی ہے ۔