ہوئے مرکے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کوئی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
عوامی نمائندے اور سنگین مقدمات
ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 48 ارکان پارلیمنٹ اور اسمبلی ایسے ہیں جن کے خلاف عصمت ریزی ‘ اغوا ‘ حبس بیجا میں رکھنا اور جنسی دست درازی جیسے سنگین مقدمات زیر دوران ہیں۔ یہ تعداد ان عوامی نمائندوں کی ہے جنہوں نے اپنے انتخابی حلف ناموں میں یہ ان مقدمات کا اعتراف کیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تعداد اور بھی زیادہ ہو لیکن کسی نے ان کا انکشاف نہ کیا ہو۔ اس بحث سے قطع نظر جتنی تعداد کے خلاف معلنہ مقدمات کا انکشاف ہوا ہے وہ بھی کم نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ سب سے زیادہ فکر و تشویش کی بات یہ ہے کہ ملک کی بیشتر ریاستوں اور مرکز میں برسر اقتدار جماعت بی جے پی میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہے جو ایسے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور جن کے خلاف مقدمات درج ہیں۔ ان مقدمات کی نوعیت انتہائی سنگین ہے لیکن یہ اندیشے بھی بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ یہ ملزمین اپنے عوامی عہدہ کے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ان الزامات سے بری ہوجائیں گے ۔ ملک کی برسر اقتدار پارٹی میں ایسے افراد کی تعداد خواتین کے حقوق ‘ ان کے تحفظ اور ان کی عزت و احترام کے معاملہ میں اس کی سنجیدگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ پارٹی ایسی ہے جس نے ہمیشہ ہی دوسروں سے مختلف ہونے اور خواتین کے حقوق کی حفاظت کرنے کا دعوی کیا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں مسلم خواتین کو ان کے حقوق دلانے کے بہانے شریعت میں مداخلت کی کوشش کی گئی اور طلاق ثلاثہ پر قانون بنادیا گیا ۔ اس وقت خواتین کے حقوق کی دہائی دی گئی لیکن اب اسی پارٹی کے منتخب عوامی نمائندوں کا کردار بے نقاب ہوا ہے اور اسی پارٹی میں عصمت ریزی ‘ اغوا اور گھریلو تشدد جیسے سنگین الزامات کا سامنا کرنے والوں کی زیادہ تعداد پائی جاتی ہے ۔ یہ تعداد اس جماعت کی خواتین کے حقوق کے تعلق سے سنجیدگی کو بھی ظاہر کرتی ہے ۔ پارٹی ہمیشہ ایک ہی بات دہراتی ہے کہ ابھی ان کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہوئے ہیں اور اس وقت تک کسی کو خاطی قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب تک یہ لوگ عہدوں اور اقتدار سے دور نہیں رکھے جائیں گے ان کے خلاف تحقیقات غیر جانبدار نہیں ہوسکتی اور نہ ہی متاثرہ خواتین و لڑکیوں کو انصاف ملنے کی امید کی جاسکتی ہے ۔
بی جے پی کے علاوہ ترنمول کانگریس ‘ شیوسینا اور کچھ جماعتیں ایسی ہیں جن کے خلاف ایسے سنگین معاملات درج ہیں۔ مہاراشٹرا ایسے واقعات میں سر فہرست ہے ۔ یہاں بھی بی جے پی کی حکومت ہے اور ترنمول کانگریس اقتدار والی ریاست مغربی بنگال میں بھی ایسے زیادہ واقعات کی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں اس طرح کے قائدین کی موجودگی ان کی ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے اور خواتین کے حقوق ‘ ان کی سلامتی اور ان کی عزت و احترام کے تعلق سے ان جماعتوں کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اور عوامی سطح پر یہ تو جماعتیں اور ان کے قائدین خواتین کے تعلق سے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں ۔ دکھاوے کی عزت و احترام میں بھی یہ کسی سے پیچھے نہیں رہتے لیکن حقیقی معنوں میں یہ لوگ خواتین کے حقوق اور ان کی سلامتی کو متاثر کر رہے ہیں یا پھر ایسا کرنے والوں کی ‘ انہیں عوامی منتخبہ نمائندے بناتے ہوئے ‘ حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ایسے میں خواتین کے تعلق سے ان کے دعووں کی حقیقت آشکار ہوجاتی ہے ۔ یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ خواتین کے تعلق سے سیاسی جماعتوں اور ارکان پارلیمنٹ و اسمبلی کے دعوے محض دکھاوا ہوتے ہیں اور وہ نجی اور ذاتی زندگی میں خواتین کے خلاف جرائم میں ملوث ہیں۔ یہ اپنے مقدمات کے نتائج پر بھی اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اثر انداز ہوتے ہیں اور متاثرہ خواتین سے انصاف نہیں ہوپاتا ۔ یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے ۔
اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد خاص طور پر بی جے پی اور دوسری جماعتوں کو عوام سے معذرت خواہی کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان جماعتوں کو خواتین کے تئیں سنجیدگی کا ثبوت دینے کیلئے ان مقدمات کا سامنا کرنے والے ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمنٹ کو پارٹی کی صفوں سے دور کیا جانا چاہئے ۔ انہیں قانون کے مطابق مقدمات کی سماعت تک سرکاری عہدوں سے دور رکھا جانا چاہئے ۔ ان کے خلاف مقدمات کی سماعت غیر جانبدارانہ انداز میں اور فاسٹ ٹریک عدالتوں میں ہونی چاہئے ۔ جو کوئی سیاسی جماعت ایسا کرنے سے گریز کریگی اور بہانے بازی کریگی خواتین کے تعلق سے اس کی سنجیدگی کا عوام کو خود فیصلہ کرنا چاہئے ۔ ایسے امیدواروں کو انتخابات سے دور رکھنے کیلئے بھی ہر جماعت کو اپنے طور پر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔