گورنر کی زبان سے چیف منسٹر کے سی آر کی ستائش کی مذمت ، محمد علی شبیر کا ردعمل
حیدرآباد ۔ 2 ۔ جنوری : ( سیاست نیوز ) : قائد اپوزیشن تلنگانہ قانون ساز کونسل محمد علی شبیر نے گورنر نرسمہن کی جانب سے چیف منسٹر کو ڈائمنک قرار دینے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کیا وعدے کے مطابق 12 فیصد مسلم تحفظات فراہم نہ کرنے پر چیف منسٹر ڈائمنک ہوگئے ؟ گورنر سے استفسار کیا ۔ عوامی مسائل پر گورنر کو یادداشت پیش کرنے کو بے فیض قرار دیتے ہوئے مستقبل میں گورنر سے ملاقات کرنے کے بارے میں غور کرنے کا صدر تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی کو مشورہ دیا ۔ آج اسمبلی کے میڈیا کانفرنس ہال میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محمد علی شبیر نے کہا کہ گورنر دستور کے محافظ ہوتے ہیں حکومت کی کوتاہیوں ، غلطیوں ، بدعنوانیوں ، فلاحی اسکیمات پر عدم عمل آوری وغیرہ پر حکومت سے وضاحت طلب کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے ۔ ریاست کے عوام اور اپوزیشن جماعتوں کی گورنر سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ۔ تاہم گورنر نرسمہن نے نئے سال کے موقع پر چیف منسٹر اور ٹی آر ایس قائدین کو بٹھا کر سرکاری عہدیداروں کو گمراہ بناتے ہوئے نہ صرف چیف منسٹر کے سی آر کو ڈائمنک قرار دیا ہے بلکہ اپنی زندگی میں ایسا چیف منسٹر نہ دیکھنے کا کے سی آر کو خطاب دیتے ہوئے جمہوری ملک میں ایک غلط مثال قائم کی ہے ۔ نوٹ بندی کے بعد چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر اور وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان بہت زیادہ قربت بڑھ گئی ہے ، ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی میعاد میں مزید توسیع کرانے کے لیے گورنر نے چیف منسٹر کی ستائش کی ہوگی ۔ مگر اس سے عوام میں دستوری عہدے کا جو احترام تھا وہ گھٹ گیا ہے ۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ چیف منسٹر کے سی آر نے اقتدار حاصل ہونے کے بعد 4 ماہ میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ مگر 31 ماہ مکمل ہونے کے باوجود مسلمانوں سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا گیا ۔ ہر سال ڈھائی لاکھ ڈبل بیڈروم مکانات تعمیر کرنے کا وعدہ تاہم ابھی تک صرف 900 مکانات تعمیر کئے گئے ۔ دلتوں کو 3 ایکڑ اراضی دینے کا وعدہ کیا گیا ۔ اب تک یونیورسٹیز کے وائس چانسلرس کا تقرر نہیں کیا گیا ۔ فیس ری ایمبرسمنٹ کے 3 سالہ بقایا جات جاری نہیں کئے گئے ۔ کسانوں کے قرضہ جات معاف نہیں کئے گئے ۔ کسانوں کی اموات میں سارے ملک میں تلنگانہ سرفہرست ہے ۔ سرکاری ہاسپٹلس بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد تلنگانہ میں ایک یونٹ برقی پیداوار میں اضافہ نہیں ہوا ۔ کیا گورنر نے اس کے لیے چیف منسٹر کو ڈائمنک قرار دیا ہے ؟ ارکان اسمبلی نے بڑے پیمانے پر سیاسی وفاداریاں تبدیل کیں ہیں ۔ ان کے خلاف گورنر نے حکومت یا اسپیکر اسمبلی کو کوئی احکامات جاری نہیں کئے بلکہ تلگو دیشم کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے ٹی سرینواس یادو کو استعفیٰ منظور ہونے سے قبل گورنر نے راج بھون میں منعقدہ تقریب میں وزارت کا حلف دلا دیا ۔ انہوں نے سیاسی اقدار پر کشمیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سابق چیف منسٹر فاروق عبداللہ کو شکست دینے والے پی ڈی پی کے رکن پارلیمنٹ طارق حامد کرار نے پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیان اتحاد قائم ہوجانے پر بطور احتجاج اپنی لوک سبھا نشست سے مستعفی ہوگئے اور اسپیکر لوک سبھا پر دباؤ ڈالتے ہوئے اپنا استعفیٰ منظور کروایا ۔۔