عوامی لیگ کے سابق قائد کا بیٹا بھی دہشت گرد، انکشاف پر قائد دم بخود

ڈھاکہ ۔ 5 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) بنگلہ دیش کے ایک سیاستداں جن کا بیٹا دولت اسلامیہ کے ان دہشت گردوں میں سے ایک تھا جس نے یرغمالیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، نے انتہائی تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ جان کر ’’دم بخود‘‘ رہ گئے کہ ان کا بیٹا بھی دہشت گرد ہے اور قتل عام میں اس کا بھی ہاتھ ہے جبکہ اس کی کسی بھی حرکت سے ہم یہ اندازہ نہیں لگا پائے کہ وہ انتہاء پسندی کی جانب مائل ہورہا ہے۔ حکمراں جماعت عوامی لیگ کے سابق قائد امتیاز خان نے بی بی سی بنگال سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جب پتہ چلا کہ ان کا بیٹا بھی دولت اسلامیہ کی صفوں میں شامل ہے تو جیسے ان کے زبان پر تالے پڑ گئے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا بیٹا پنجوقتہ نمازی تھا جس کا سلسلہ اس نے انتہائی کم عمری سے شروع کیا تھا تاہم ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایسا ہوگا۔ گھر پر ایسی کوئی کتاب، ایسا کوئی لٹریچر یا ایسی کوئی علامت نہیں دیکھی گئی ہے جس سے ہم یہ کہہ سکیں کہ وہ انتہاء پسندی کی جانب مائل ہورہا ہے۔ امتیاز خان کے بیٹے روہن کو سیکوریٹی فورسیس نے یرغمالوں کو آزاد کروانے کیلئے ایک مشترکہ آپریشن کے دوران گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جنہوں نے ہولی آرٹیسن بیکری کو نشانہ بنایا تھا جو غیرملکیوں میں کافی مقبول ہے۔ گذشتہ سال ڈسمبر میں روہن لاپتہ ہوگیا تھا جس کے بعد اس کے والدین نے اس کی گمشدگی کی پولیس میں رپورٹ درج کروائی تھی۔ اس کے بعد سے امتیاز خان کو اپنے بیٹے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ البتہ مقامی اخبارات اور میڈیا میں انتہاء پسندوں کی جو تصاویر شائع کی گئی ہیں انہیں دیکھ کر ہم نے اپنے بیٹے کو پہنچانا۔ یاد رہیکہ امتیاز خان کا بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ تمام حملہ آور بنگلہ دیشی شہری تھے جن کا مالدار گھرانوں سے تعلق تھا اور وہ تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔