عنبرپیٹ اراضی کو لیزپر دینا وقف قانون کی خلاف ورزی

بورڈکی تشکیل کے عمل کے دوران کوئی بھی فیصلہ درست نہیں
حیدرآباد ۔ یکم  فروری (سیاست نیوز) ایسے وقت جبکہ تلنگانہ وقف بورڈ کی تشکیل کا عمل جاری ہے۔ وقف بورڈ کی جانب سے اہم فیصلے کرنا کہاں تک درست ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جو ان دنوں برسر اقتدار پارٹی اور اوقافی امور کے ماہرین کے درمیان موضوع بحث بن چکا ہے ۔ عوامی نمائندوں اور قانونی ماہرین کا احساس ہے کہ وقف بورڈ کی جانب سے گزشتہ دنوں عنبرپیٹ میں 2500 مربع گز اراضی کو 30 سالہ لیز پر دیئے جانے کا فیصلہ نہ صرف وقف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ روایت سے انحراف ہے۔ عام طور پر وقف بورڈ کی تشکیل سے متعلق اعلامیہ کی اجرائی کے ساتھ ہی وقف بورڈ کے عہدیدار اہم فیصلوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ منتخبہ بورڈ کو اہم فیصلوں کا اختیار حاصل ہوتا ہے ۔ بورڈ کے اعلیٰ عہدیداروں بالخصوص عہدیدار مجاز نے جو محکمہ کے سکریٹری بھی ہیں، اختیارات کا مبینہ طور پر بیجا استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سکریٹری اقلیتی بہبود نے 30 سالہ لیز کے سلسلہ میں دو علحدہ احکامات جاری کئے اور دونوں میں تضاد پایا جاتا ہے ۔ 11 اوقافی اراضیات کو 30 سالہ لیز پر دینے سے متعلق احکامات میں واضح کیا گیا کہ گلوبل ٹنڈرس طلب کرتے ہوئے یہ اراضیات ڈیولپمنٹ کیلئے لیز پر دی جائیں گی لیکن عنبر پیٹ میں جس اراضی کو 30 سال کیلئے مقامی سیاسی جماعت کے ٹرسٹ کے حوالے کیا گیا ، اس میں اس شرط کی پابندی نہیں کی گئی۔ ماہرین وقف قانون کا احساس ہے کہ اقلیتی بہبود کے اعلیٰ عہدیدار سیاسی سرپرستوں کو خوش کرنے کیلئے قانون سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے کام کر رہے ہیں اور حالیہ دونوں احکامات اس کا کھلا ثبوت ہے ۔ وقف بورڈ کی تشکیل کے سلسلہ میں ایک مرحلہ گزشتہ ماہ مکمل ہوچکا ہے جس میں 4 زمروں کے تحت 6 ارکان کا انتخاب کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے 4 نامزد ارکان کے ذریعہ اعلامیہ کی اجرائی باقی ہے۔ ایسے مرحلہ پر سکریٹری اقلیتی بہبود کا یہ متنازعہ فیصلہ بورڈ کے منتخب ارکان میں بھی بحث کا موضوع بن چکا ہے ۔ وقف بورڈ کی عدالتوں میں پیروی کرنے والے وکلاء بھی اس خلاف ورزی پر حیرت میں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس معاملہ کے منظر عام پر آنے کے بعد سکریٹری نے وقف بورڈ کے عہدیدار پر برہمی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بحیثیت سکریٹری وہ 30 سالہ لیز کا اختیار رکھتے ہیں لیکن وقف بورڈ کے عہدیدار اس دعوے کو تسلیم کرنے تیار نہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اپوزیشن کے ایک اہم قائد سے بات چیت کرتے ہوئے سکریٹری نے اپنی غلطی کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اشاروں ہی اشاروں میں سیاسی دباؤ کا حوالہ دیا۔