حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین ، صدر مفتی جامعہ نظامیہ
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگرکسی شخص کو عمر قید کی سزا ہوجائے تو کیا رشتہ نکاح باقی رہتا ہے یا نہیں اور اگر اس کی بیوی دوسرا نکاح کرنا چاہے تو شریعت میں اس کاکیا طریقہ ہے ؟
جواب : صورت مسئول عنہا میں شریعت کے مطابق جب ایک مرتبہ نکاح منعقد ہوتاہے تو بیوی اپنے شوہر کی زوجیت سے کبھی خارج نہیں ہوتی تا وقت یہ کہ شوہر اس کو طلاق دے یا وہ خلع لے لے یا مرجائے ۔
پس صورت مسئول عنہا میں عمر قید کی سزا سے رشتہ نکاح ختم نہیں ہوتا، بیوی کو چاہئے کہ وہ عمر قید کی سزا کاٹنے والے شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرے اور بعد طلاق یا خلع، عدت گزرنے کے بعد وہ دوسرا نکاح کرسکتی ہے ۔اس کی اور ایک صورت یہ ہیکہ وہ اپنی مجبوریات ظاہر کرکے مسلم حاکم عدالت کے پاس فسخ نکاح کی درخواست پیش کرے اگر حاکم عدالت اس کا نکاح فسخ کردے تو اس کا نکاح فسخ ہوجائے گا اسکے بعد عدت گزار کر وہ دوسرا نکاح کرسکتی ہے ۔ انقطاع زوجیت و انقضاء عدت کے بغیر دوسرے شخص سے نکاح کرنا شرعاً حرام ہے۔ رد المحتار ج ۲ ص ۶۲۳ باب العدۃ میں البحر الرائق سے منقول ہے : أما نکاح منکوحۃ الغیر و معتدتہ …… لانہ لم یقل أحد بجوازہ فلم ینعقد اصلا ۔ عالمگیری جلد اول ص ۲۸۰ میں ہے: لایجوز للرجل أن یتزوج زوجۃ غیرہ ۔
خسر پر اپنی بیوہ بہو کا نفقہ واجب نہیں
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کے لڑکے کا ناداری کی حالت میں انتقال ہوا اورزید کی بہو عدت کے دن شوہر کے گھر میں گزارنے کے بعد تمام سامان جہیز و چڑھاوا لیکر اپنے والد کے گھر چلے گئی اور وہ وہیں مقیم ہے اور اب خسر زید سے اپنے نفقہ اور مہر کا مطالبہ کر رہی ہے۔
ایسی صورت میں کیا اس کا مطالبہ شرعاً درست ہے یا نہیں؟
جواب : صورت مسئول عنہا میں شریعت مطہرہ نے بیوی کا نفقہ اس کے شوہر پر ہی واجب کیا ہے ۔ فتاوی مہدیہ جلد اول صفحہ ۴۵۹ میں ہے: نفقۃ الزوجۃ الغیر الناشزۃ التی لا مانع من قبلھا واجبۃ علی زوجھا۔ اسی طرح مہر کا حال ہے کیونکہ مہر ملک بضع یعنی حق وطئی کا معاوضہ ہے جس کا شوہر ہی مالک ہے۔ اس لئے شوہر ہی کے ذمہ اس کی ادائی ہے۔
شوہر اور بیوی میں سے کسی ایک کے مرجانے کے بعد مفروضہ نفقہ ساقط ہوجاتا ہے ۔ فتاوی مہدیہ جلد اول صفحہ۳۸۸ میں ہے: فی التنویر و بموت احدھما اوطلاقھما یسقط المفروض الا فی اذا استدانت بامرقاض۔ پس دریافت شدہ مسئلہ میں چونکہ زید کا لڑکا بحالت ناداری انتقال کر گیا ہے اس لئے زید کی بہو کو اپنے خسر کی ذاتی جائیداد سے مہر و نفقہ لینے کا کوئی حق نہیں۔ کیونکہ نفقہ تو آپ کے بیٹے کے انتقال سے ساقط ہوگیا۔ البتہ مہر کی رقم زید کے مرحوم بیٹے کے ذمہ قرض ہے۔ سامان جہیز، چڑھاوا جو زید کے مرحوم بیٹے کی طرف سے شادی کے وقت دیا گیا تھا ۔ اگر زید کے لڑکے اور زید جو اس سامان کو اپنی ذاتی رقم سے بہو کو دے دینے کی نیت سے بھیجا تھا یا مہر کی ادائی میں بھیجا تھا تو یہ سامان زید کی بہو کی ملک ہے۔ اگر اس کو دینے کی نیت نہ تھی تو بھیجنے والے کی ملک ہے جو زید کی بہو سے واپس لینے کے قابل ہے کیونکہ سامان اُسی وقت ملک ہوتا ہے جبکہ زوجہ کو مفت دے دیا جائے یا مہر میں ادا ہو۔ عالمگیری جلد اول صفحہ ۳۲۷ کتاب النکاح میں ہے: واذابعث الزوج الی اھل زوجتہ اشیاء عند زفافھا منھا دیباج فلما زفت الیہ اراد ان یسترد من المراۃ الدیباج لیس لہ ذلک اذا بعث الیھا علی جھۃ التملیک اور صفحہ ۳۲۲ میں ہے: رجل بعث الی امراتہ متاعا و بعث ابوالمراۃ الی الزوج متاعا ایضا ثم قال الزوج الذی بعثتہ کان صداقا کان القول قول الزوج معہ یمینہ۔