عمادالقراء حضرت کرنل مرزا بسم اﷲ بیگ ؒ بحث و تحقیق اور ضبط اوقات میں عظیم نمونہ

استاذ گرامی نجم القراء حضرت قاری حاجی محمد عمر مدظلہ حیدرآباد دکن میں علم تجوید و قرا ء ت کی گرانمایہ خدمات پر رقمطراز ہیں : ’’حیدرآباد دکن نے منجملہ اور علوم کے علم تجوید کی بہت خدمت کی ہے ۔ دہلی اور لکھنو کے اجڑنے کے بعد علم و ادب اور شعر و سخن کا چرچہ حیدرآباد میں رہا ۔ اکثر صاحب کمال یہاں آئے اور بس گئے اور جو نہ آسکے وہ حسرت کرتے رہ گئے جہاں دیگر علوم و فنون نے حیدرآباد میں ترقی کی وہیں علم تجوید بھی یہاں پھولا پھلا ۔ شائد ہی ہندوستان کے کسی شہر میں اسکی نظیر ملے‘‘ ۔
(قرۃ عینی مجموعہ حمد و نعت مطبوعہ ۲۰۰۷؁ء )
حیدرآباد دکن کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ باہر سے یہاں علماء و فضلاء بڑی بڑی خدمات پر فائز رہے ، مگر حیدرآباد کے صاحب فن کو سفر کرنے یا ہجرت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی ، شہر ہی میں اس کے قدر دان رہے باہر ان کی زیادہ شہرت نہ ہوئی ۔ یہی حال فن تجوید و قراء ت کا رہا کہ باوجود یہ کہ شہر حیدرآباد فن تجوید و قراء ت کا عظیم مرکز تھا لیکن ہندوستان کے طول و عرض میں اس کی شہرت اس حیثیت سے نہ رہی چنانچہ اس ضمن میں ایک واقعہ بڑا دلچسپ ہے جو تذکرہ قاریان ہند حصہ سوم ص : ۴۰ میں موجود ہے کہ دہلی کے نامور قاری محمد یوسف جو دہلی ریڈیو پر کئی سال قراء ت سناتے رہے حیدرآباد یہ سمجھ کر تشریف لائے کہ یہاں تجوید کا خاطر خواہ کام نہیں ہوا، ایک تجوید کا مدرسہ قائم کرکے خدمت کرسکوں گا ۔ قاری صاحب کو نواب بہادر یارجنگ نے مہمان رکھا ۔ ان کی تجوید سنی اور سمجھ گئے کہ قاری صاحب اپنی لاعلمی کی بناء یہ بات پیش کررہے ہیں۔ نواب بہادریار جنگ نے اپنے مکان پر ایک قراء ت کا جلسہ رکھا جس میں شہر کے ممتاز قراء حضرات نے قراء ت سنائی ۔ اس جلسہ میں قاری صاحب کو معلوم ہوا کہ حیدرآباد میں ایک روایت کے نہیں بلکہ سبعہ و عشرہ قرا ء ت کے جاننے والے بھی موجود ہیں۔
حیدرآباد کے انہی نامور اصحاب فن کمالات میں ایک عظیم نامی گرامی قاری عشرہ عمادالقراء حضرت کرنل مرزا بسم اﷲ بیگ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو علم نحو اور قرا ء ت میں خدمات کے علاوہ دو نمایاں خوبیوں (۱) ضبط اوقات (۲) تحقیق و جستجوکے سبب قراء کرام ، علماء عظام اور محققین و اسکالرس کیلئے عظیم نمونہ ہیں۔ آپ کی ولادت شہر حیدرآباد دکن میں ۱۳۲۰ ؁ھ مطابق ۱۹۰۱؁ء میں ہوئی ، ۱۳۴۶؁ھ میں گرائجویٹ ہوئے ۔ فوج میں ملازمت اختیار کی ، ترقی کرتے ہوئے کرنل کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ ۱۳۶۸؁ھ اسی عہدہ سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے ۔ فارسی اور عربی شاعری میں مولانا سید اشرف شمسی اور جلال الدین توفیق سے تلمذ رہا، مولانا مناظر احسن گیلانی اور پروفیسر سید عبدالنبی سے عربی ادب کی تعلیم پائی ۔ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں حضرت سید شاہ ضیاء الدین حسن بھوپالی سے بیعت و خلافت پائی ۔ تجوید و قرا ء ت میں حضرت شیخ سالم العمودی کے پاس ایک روایت سے ختم کرنے کے بعد سبعہ قرا ء ت کی تکمیل کی ۔ اور حضرت مولانا حافظ و قاری عبدالرحمن بن محفوظ ، مقری سید احمد یمنی اور قاری محمد اسحق کو قرآن پاک سنایا۔ شیخ القراء میر روشن علیؒ کو ۱۳۶۴؁ھ مطابق ۱۹۴۴؁ء میں حضرت امام عاصم کی قرا ء ت سے قرآن شریف سنایا۔ ۱۳۷۳؁ھ میں قرا ء ت سبعہ و عشرہ کی تکمیل کی اور استاذ محترم نے عمادالقراء کا خطاب نیز خلافت و نیابت سے ممتاز فرمایا ۔

عمادالقراء حضرت کرنل بسم اﷲ بیگؒ سفرِ تحقیق کی تحریک سے متعلق بیان کرتے ہیں ’’کوئی بیس سال ہوئے کہ قاری حافظ ابومحمد محی الاسلام پانی پتی کی شرح سبعہ قرا ء ت پڑھنے کا اتفاق ہوا اس کے دیباچے میں حضرت نے لکھا ہے : ’’قراء کے حالات قلم بند کرنے میں عالم اسلام نے جو خدمت انجام دی اس میں اولیت کافخر اندلس کو حاصل ہے مگر ہندوستانی قرا ء ت و قراء کے بارے میں کچھ نہ لکھا ، ہندوستان کے سلاطین و امراء کی تاریخیں لکھی گئیں۔ شاعروں ، عالموں ، خطیبوں حتی کہ گویوں کے تذکرے تالیف ہوئے مگر خدّامِ کلام اﷲ کا کسی نے نام بھی نہ لیا‘‘ ۔
پس یہ تحریر حضرت قبلہ کے دل میں چبھ گئی اسی وقت آپ نے قراء کے حالات جمع کرنے اور اس پر تحقیقی مواد فراہم کرنے کا عزم کرلیا ۔ جیسے جیسے موقعہ ہوا حالات جمع کرتے گئے اور مختلف کتابیں شائع کرتے رہے ۔ ’’حیدرآباد دکن نے قراء ت کی کیا خدمت انجام دی ‘‘ ،قراء براراور قراء اڑیسہ پر تحقیقی مقالے اور مضامین طبع کروائے ۔ دھیرے دھیرے ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے لیکر ۱۳۸۰؁ھ تک ہندوستان کے طول و عرض کے قراء کرام کے حالات جمع کئے۔ تاریخ ، تذکرہ کی کتابیں چھان ڈالی ، ہندوستان کا فارسی ، عربی اردو کتب خانہ ایسا نہ رہا جس کو آپ نے نہ چھانا ہو ۔ شخصی کتبخانوں سے استفادہ کیا ۔ ہندوستان کے کسی بھی مقام پر کسی قاری کا علم ہو تو رخت سفر باندھا اور ان کے حالات جمع کئے ۔ فنِ تجوید پر لکھی گئی اردو ، عربی اور فارسی کتابوں اور مخطوطات کا جائزہ لیا۔ سولہ سال کی کڑی محنت کے بعد ۱۵۰۰ صفحات پر دو ہزار قراء ہندوستان کا انسائیکلوپیڈیا جمع کیا ۔ بقول مولانا عبدالماجد دریابادیؒ ’’اردو میں تو خیر اس بسط و تفصیل کے ساتھ اس فن شریف کی تاریخ کیا لکھی جاتی ، دنیا کی کسی زبان میں اس ٹکر کی کتاب کا پتہ غالباً نہ مل سکے ‘‘۔
اﷲ کی مدد شامل حال ہو تو مستقبل قریب میں اس کتاب کا تفصیلی جائزہ لیا جائیگا ۔ پس اس کتاب کو دیکھنے سے آپ کا علمی ، ادبی اور تحقیقی ذوق کے علاوہ اپنے متعلقہ فن سے بے پناہ محبت و جنون کا اندازہ ہوتا ہے۔ نیز آپ کی زندگی کا ایک دوسرا اہم پہلو نظم حیات اور ضبط اوقات ہے ۔ حضرت شاہ کلیم اللہ اپنے مکتوبات کلیمی میں فرماتے ہیں : ’’جو اوقات کی پابندی نہیں کرتا وہ دنیا اور آخرت دونوں میں نقصان میں رہتا ہے ‘‘ ۔ آپ خود بیان کرتے ہیں : اسلامی زندگی اختیار کرنے والوں کے عموماً اور قراء کے اوقات میں خصوصاً ایک نظم و ضبط پیدا ہوجاتا ہے ۔ ابتدائً علم حاصل کرنے کی خاطر محنت شاقہ کا عادی ہونا، بڑے بڑے علماء سے سیکھنا ، ان کی صحبت سے فیض یاب ہونا ، بعد ازاں حج و سفر کرنا پھر متاہل زندگی کے ساتھ درس و تدریس میں مشغولیت ، خلق خدا کی فیض رسانی ، ماہانہ ، ہفتہ واری روزانہ اوقات کی پابندی ۔ اس قسم کے نظم و ضبط کی زندگی کے بہ کثرت نمونے قراء کی زندگی میں ملیں گے ‘‘ ۔
چنانچہ آپ کی زندگی میں ضبط اوقات کے اس عنصر کو اُبھارتے ہوئے آپ کے رفیق خواجہ محمد احمد مرحوم سابق ناظم آثار قدیمہ تذکرہ قاریان ہند پر تبصرہ میں فرماتے ہیں : ’’جو حضرت عاصم کی قراء ت سے آپ کے پاس قرآن پاک کی تکمیل کرلیتے ہیں ، ان کے لئے قرآن پاک کا ایسا نسخہ جو رسم الخط کے لحاظ سے اچھا ہو ، اس پر قراء ت عاصم کا حاشیہ اپنے ہاتھ سے تحریر فرماکر تحفتہً شاگرد کو عنایت کرتے ہیں ، اگر آپ کو معلوم ہوجائے کہ کوئی مرد یا خاتون عشرہ کی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہے اس کو بھی آپ قرآن پاک کا اچھا نسخہ عشرہ کا حاشیہ تحریر فرماکر تحفۃً دیتے ہیں۔ یوں تو قراء ت عاصم کا حاشیہ لکھنے میں کافی محنت اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے لیکن عشرہ کا حاشیہ لکھنے میں روزانہ چار پانچ گھنٹے اگر صرف کئے جائیں تو کم از کم دوماہ درکار ہوتے ہیں ۔ اس سے اس محنت شاقہ کا موہوم سا اندازہ ہوجاتا ہے جو آپ اس متبرک فن کی ترویج میں فرماتے ہیں ۔ ابھی تک آپ سینکڑوں قرآن شریف تحفۃً دے چکے ہیں خود میرے خاندان میں تحفۃً دیئے ہوئے عشرہ کے حاشیہ کے ساتھ پانچ چھ قرآن پاک موجود ہیں‘‘ ۔

متذکرہ بالا اقتباس سے واضح ہے کہ کس طرح آپ نے اپنے وقت کی حفاظت کی اور آپ نے تدریس ، تحقیق اور تالیف کے علاوہ صرف عشرہ کے حاشیہ لکھنے میں کتنا وقت صرف کیا ۔ نیز آپ ہی کے مطابق کئی سو افراد نے آپ سے قراء ت کی تعلیم پائی ۔ عشرہ کی تکمیل کرنے والوں میں اہم اور ممتاز (۳۶) نام آپ نے ’’تذکرۂ قاریان ہند‘‘ میں درج کئے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ کتنے افراد کو آپ نے اپنے قلم سے سبعہ و عشرہ کے حاشیہ تحریر کرکے تحفۃً دیا ہے ۔ پس آپ کی زندگی تحقیق و جستجو نظم حیات و ضبط اوقات بالخصوص متعلقہ فن کی جنون کی حد تک خدمت میں ہم سب کیلئے عظیم نمونہ ہے ۔ آپ کے پیغام پر مضمون کو ختم کیا جاتا ہے۔ ’’شفاء لمافی الصدور کی جو کیفیات یہاں دکھائی دیتی ہیں وہ کسی اور جگہ نہیں ملتیںاگر قلب منیب کی تمنا ہے ، ارذل عمر سے بچنا ہے ، عمر کی طوالت مطلوب ہے ، لذت تکلم حاصل کرنا ہے ، ایمان کا مزہ لینا ہے تو اس میدان میں آئیے ، یہ سب چیزیں ملیں گی بلکہ بہت کچھ اور ‘‘ ۔
(تذکرہ قاریان ہند حصہ اول ص : ۴)