علیحدہ تلنگانہ میں مسلمانوں کو مساوی مواقع دینا ضروری

سیاسی جماعتیں 12 فیصد تحفظات کا وعدہ بہر صورت پورا کریں۔ کیپٹن پانڈو رنگا ریڈی

حیدرآباد۔25فبروری(سیاست نیوز) متحدہ ریاست آندھرا پردیش کے قیام کے ساتھ ہی علاقہ تلنگانہ کے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کی سازشوں کا آغاز کردیا گیا ‘ ریاست حیدرآباد میں جہاں مسلمان تمام شعبہ حیات میںاپنے آبادی کے تناسب سے خدمات انجام دے رہے تھے وہیں مسلمانوں کو زبان کی بنیاد پر ملازمتوں سے بیدخل کردیا گیا۔مشہور سماجی جہدکار وسکیولرزم کے علمبردار صدروائس آف تلنگانہ کیپٹن لنگا پانڈورنگاریڈی نے اپنے تاثرات میں یہ بات کہی۔انہوں نے کہاکہ متحدہ ریاست میں سیاسی وسماجی تبدیلیوں میں سیاست دانوں کا اہم رول رہا ۔ آصف جاہی دور حکومت و ریاست حیدرآباد کے مسلمانوں سے تعصب سے متحدہ آندھرا حکمرانوں نے مسلمانوں کو پسماندگی کا شکار بنایا۔ انہوں نے کہاکہ متحدہ ریاست سے قبل تلنگانہ کے مسلمانوں کے تعلیمی اور معاشی حالات بے مثال تھے جس کو سازش کے تحت تباہ کردیا گیا۔ پولیس ایکشن کے بعد متوسط طبقے کے مسلمان جو تعلیمی یافتہ بھی تھے آندھرائی قائدین کی سازشوں اور متعصب سیاست دانوں کے رویہ سے بیرونی ممالک نقل مقام کرنے پر مجبو ہوگیا اور جو یہاں تھے اُنکی جائیدادیں فرضی انقلابات کے نام پر لوٹی گئی ۔ کیپٹن پانڈورنگاریڈی نے کہاکہ آندھرا اور تلنگانہ کے انضمام کا سب سے بڑا اثر مسلمانوں پر پڑا اور انضمام کی بھاری قیمت بھی مسلمانوں نے معاشی اور تعلیمی طور پسماندہ ہوکر ادا کی۔

انہوں نے کہاکہ 60 سالہ جدوجہد کے بعد ریاست کی تقسیم اور علیحدہ ریاست تلنگانہ کے قیام عمل میں آرہا ہے جس سے استفادہ کا مساوی موقع تلنگانہ کے مسلمانو ں کو ملنا چاہئے۔انہوں نے کہاکہ جن جماعتوں نے مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے تحفظات فراہم کرنے کاوعدہ کیاتھا ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تلنگانہ کی تشکیل کے اعلان کے ساتھ تلنگانہ کے مسلمانو ں کو بارہ فیصد تحفظات فراہم کریں۔ انہوں نے اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا کہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے ساتھ ہی سیاسی جماعتیں مسلمانوں سے وعدوں سے دستور ہند کا سہارا لیکر منحرف بھی ہوسکتی ہیںاس لئے انہوں نے کرناٹک اور ٹاملناڈو ریاستوں کی مثالیںپیش کرتے ہوئے کہاکہ مذکورہ ریاستوں میں پسماندگی کا شکار طبقات کو دئے گئے تحفظات کا تناسب ستر اور پچاس فیصد تک ہے اس لئے تلنگانہ میں مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے 12 فیصد تحفظات فراہم کئے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سرکاری شعبوں میں مسلمانوں کو تحفظات اور ملازمتوں کو یقینی بنانے ایمپلائمنٹ سل کابھی قیام عمل میں لایا جانا چاہئے جس سے آئو ٹ سورسنگ سے مسلمانوں کا تقرر آسان ہوسکے اور چار تا پانچ سال کی سروس کے بعد ان کو سرکاری محکموں میں قابلیت کے مطابق مستقبل ملازمت فراہم کی جاسکے۔ انہوں نے سرکاری شعبوں میںمسلم نوجوانوں کے تقرر کیلئے اڈھاک سسٹم کو متعارف کروانے کی تجویز پیش کی جس کے ذریعہ قابل اور باصلاحیت مسلم نوجوانوں کو روزگار کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے کی نوبت نہ آسکے ۔ انہوں نے مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے 12 فیصد تحفظات فراہم کرکے تلنگانہ میں مسلمانوں کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کرنے پر زور دیا ۔ انہوں نے اُردو ذریعہ تعلیم کے فروغ کو ضروری قراردیا او رکہاکہ اُردو کو روزگار سے جوڑ کر اُردو کو فروغ اور اُردو داں طبقہ کو روزگار کے مواقع فراہم کئے جاسکتے ہیں۔انہوں نے ریاست کے تمام شعبہ حیات میں مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے تحفظات ورعایتوں کی فراہمی کو مسلمانوں میں احساس کمتری کودور کرنے کا بہترین ذریعہ قراردیا جو علاقہ تلنگانہ سے فرقہ پرستی کے خاتمہ کا ذریعہ ہوگا۔