علم نافع کے حصول کی ہدایت

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وہ اللہ ہی تو ہے، جس نے تمہارے لئے سمندر کو مسخر کردیا، تاکہ اسکے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور شکر گزار رہو۔ اس نے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو تمہارے لئے مسخر کردیا۔ سب کچھ اپنی طرف سے، اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں (سورۂ جاثیہ) نیز فرمایا: ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے زمین اور آسمان کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کردی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر نچھاور کردی ہیں‘‘ (سورۂ لقمان) اور یہ بھی فرمایا: ’’پاک ہے وہ ذات جس نے تمام اقسام کے جوڑے پیدا کئے، خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود نوع انسانی میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو تم نہیں جانتے‘‘۔ (سورۂ یسین)

صدیوں پہلے یہ بات قرآن ہی نے بتائی کہ حیوانات کے علاوہ نباتات اور جمادات میں بھی جوڑے ہوتے ہیں۔ ان اسرار و رموز اور ان حقائق کے واضح ہوجانے کے باوجود ہماری تاریخ کا یہ عظیم سانحہ ہے کہ مسلمانوں نے علم کو دین اور دنیا کے الگ الگ خانوں میں تقسیم کرکے، علم دنیا کو حقارت سے ٹھکرادیا اور علم کو صرف قرآن، حدیث، فقہ اور اس کے متعلقات تک محدود کردیا۔ آج تقریباً ایک ہزار سال سے ہم اس سے بالکل بے تعلق ہوچکے ہیں، حالانکہ علم اشیاء کی عالمگیریت جو آج نظر آرہی ہے، اس کی تمام بنیادیں ہمارے اجداد نے رکھی تھی۔
ایک اور نکتہ کی بات سمجھ لیں اور اس پر خوب غور کریں کہ حیوانات کے علاوہ نباتات اور جمادات میں بھی جنسیت ہوتی ہے، جیسا کہ سورۂ یسین کی آیت (نمبر۳۶) سے معلوم ہوا۔ شاید اس آیت کے نزول سے پہلے کا واقعہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھجور کے درختوں کی پیوند کاری کر رہے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات عجیب سی معلوم ہوئی۔ آپﷺ نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔ چنانچہ صحابہ کرام نے اس سے ہاتھ کھینچ لیا، نتیجتاً اس سال فصل بہت کم اتری۔ صحابہ کرام نے صورت حال عرض کی تو آپﷺ نے اجازت دے دی، لیکن ایک بصیرت افروز بات بھی آپﷺ نے فرمادی، جو ہماری تنگ نظری دُور کرنے کے لئے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم اپنی دنیا کے معاملات بہتر جانتے ہو‘‘۔ غور کیجئے کہ پیوند کاری کا یہ علم تجربہ سے حاصل ہوا تھا، جس کے سبب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شخصی رائے واپس لے لی۔ علم دنیا کی اہمیت اور فضیلت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے؟۔

علم دنیا، علم اشیاء جس کو ہم نے غیر اہم بلکہ غیر ضروری اور کمتر سمجھ لیا اور اس سے کنارہ کش ہو گئے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس کی بنیادیں قرون اولی کے مسلمانوں نے ہی رکھی تھیں۔ ان ہی بنیادوں پر اغیار نے بے شمار ایجادات کرکے دنیا کا حلیہ ہی بدل ڈالا۔ خلاؤں کی تسخیر، فضاؤں میں طیاروں کی پروازیں، سمندروں کے پاتال میں انسانوں کی غواصی، آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں، یہ اسی علم اشیاء کی جہانگیری ہے۔ کیا غضب ہے کہ آج ہم چاند کی رویت پر جھگڑ رہے ہیں اور یارانِ جہاں چاند کو روند آئے ہیں۔ ہم نے اپنا سرمایۂ علم ان کی جھولی میں ڈال دیا اور خود دامن جھٹک کر الگ ہو گئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس دور مسابقت میں ہم ان سے ایک ہزار سال پیچھے ہو گئے۔ آج دنیا بھر میں ساری ایجادیں ان کی ہیں، سارے علم و ہنر ان کے ہیں اور ہم تہی داماں اور ان کے دست نگر ہیں۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ علم، دین کا ہوا یا دنیا کا، حاصل کرنا فرض ہے۔ قوموں کا ارتقاء اور استحکام علم ہی پر منحصر ہے۔ علم سے بے بہرہ ہوکر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کرسکتی، نہ مادی نہ روحانی۔ صوفیاء کرام نے اس مبحث میں اپنے ذوق کے مطابق علم سے ’’علم حق‘‘ مراد لیا ہے، جس کو وہ علم معرفت کہتے ہیں۔ مجھے اس سے انکار نہیں، لیکن میں اپنے ذوق اور اقتضائے زمانہ کے پیش نظر ’’قلم‘‘ سے ’’علم مطلق‘‘ مراد لیتا ہوں، خواہ وہ دین کا ہو یا دنیا کا۔
یہود کی بداعمالیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا: ’’وہ ایسی باتیں سیکھتے تھے، جو ان کے لئے نقصاندہ تھیں، مفید نہ تھیں‘‘ (سورۂ بقرہ۔۱۰۲) اس آیت کریمہ میں علم کی خوبی بیان کی گئی ہے، یعنی علم ایسا ہونا چاہئے جو نقصاندہ نہ ہو، فائدہ مند ہو۔

قرآن پاک کا موضوع ہے ’’انسان‘‘ پورے قرآن میں اس موضوع سے بال برابر بھی انحراف نہیں ملے گا۔ انسان اور انسانیت کے لئے کیا مفید ہے اور کیا مضر؟ بس یہی ایک بات پورے قرآن میں بیان ہوئی ہے۔ اس بات کی تائید حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی شامل رہتی تھی: ’’یااللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم مانگتا ہوں اور اس علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو فائدہ نہ پہنچائے‘‘۔
مندرجہ بالا آیت اور حدیث دونوں میں مثبت اور منفی دونوں طرح سے مطلوب علم کی کیفیت بیان کردی گئی ہے۔ اس کیفیت کا حامل جو علم بھی ہو، خواہ وہ دین کا ہو یا دنیا کا، انسانیت کے لئے بہرحال مفید ہوگا، اس کو ضرور حاصل کرنا چاہئے۔ ہاں جو علم انسان اور انسانیت کے لئے نقصاندہ ہو یا مفید نہ ہو، اس سے بچنا چاہئے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ہمیں جو بھی اور جتنا بھی علم ملا ہے، وہ بہت تھوڑا ہے۔
علم، اللہ تعالی کی صفت ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفت لامحدود ہوتی ہے، لہذا علم کی بھی کوئی حد اور انتہا نہیں۔ بس اس میں اضافہ کی دعا اور کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ اسی لئے ہمیں دعا سکھائی گئی ’’وقل رب زدنی علمًا‘‘ اور اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو علم نافع سے سرفراز فرمائے اور ہمیں علم کا قدرداں بنائے۔ (آمین)