ایک گاؤں میں ایک غریب عورت رہتی تھی جس کا نام رقیہ بی تھا۔ وہ گاؤں کے زمیندار کے یہاں کام کرتی تھی اور اسی سے اپنا گزارا کرتی تھی ۔ ان کا ایک بیٹا تھا ۔ سلیم وہ بہت ذہین اور محنتی تھا ۔ رقیہ بی نے سلیم کو پڑھنے کیلئے اسکول بھیجا ۔ سلیم بہت سمجھدار لڑکا تھا ۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ چھٹیوں میں مزدوری بھی کیا کرتا تھا تاکہ ماں کو زیادہ میصبتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ دن گذرے اور سلیم نے ایس ایس سی میں بہت اچھے نمبرات حاصل کئے ۔ اسے سائنس پڑھنے کا بہت شوق تھا اس لئے اس نے نزدیک کے سائنس کالج میں داخلہ لے لیا ۔ سلیم میاں کو ہر سال اسکالرشپس ملتی تھی ۔ اسی میں وہ اپنی تعلیمی ضروریات کو پورا کرتا تھا ۔ دو سال بعد ان کو انجیننئیرنگ میں سیٹ مل گئی لیکن اس کی داخلہ فیس 25 ہزار روپئے تھے جو ان کے پاس نہیں تھے ۔ رقیہ بی نے اپنی مالکن سے گذارش کی ۔ مالکن بہت جاہل تھی ۔ کہنے لگی کہ بھلا غریب کے بچے بھی پڑھتے ہیں کیا ، جاؤ اپنے لڑکے کو کل سے مزدوری کرنے کیلئے بھیجو ۔ رقیہ بی نے کہا : مالکن ’’ علم بڑی نعمت ہے ۔ اتنا سننا تھا کہ مالکین نے ان کو دھکے مارکر گھر سے باہر نکال دیا ۔ سلیم نے بڑی مشکل سے کوشش کرکے بینک سے قرض لے کر کالج کی فیس ادا کی اور رقیہ بی نے دوسری جگہ کام کرنا شروع کردیا ۔
پانچ سال تک انہوں نے بڑی تکلیف دہ زندگی گذاری اور پانچ سال بعد سلیم میاں کو بہت اچھی نوکری مل گئی اور وہ ماں کو لے کر دوسرے شہر میں بڑے عیش و آرام سے رہنے لگا ۔ سلیم بہت سخی تھا ۔ صدقہ خیرات دیا کرتے تھے ۔ ایک دن سلیم میاں اور رقیہ بی اپنے گاؤں آئے تو پورے گاؤں کے لوگ سلیم اور اس کی ماں کو عزت دینے لگے ۔ کچھ دن بعد جب وہ اپنے گھر میں تھے تب ایک عورت بھیک مانگنے آئی جب رقیہ بھی اس کو بھیک دینے گئیں تو اس بھکارن کو دیکھ کر حیران رہ گئیں ۔ کیونکہ وہ بھکارن وہی عورت تھی جو کبھی ان کی مالکن ہوا کرتی تھی اور جس نے اپنی جاہلانہ حرکت سے رقیہ بی کو بے عزت کرکے گھر سے باہر نکالا تھا ۔ اس نے بتایا کہ ایک سال بعد اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ۔ اس کے بعد اس نے اپنے سارے کھیت اور گھر بیچ دئے لیکن دولت تو ہاتھ کا میل ہوتی ہے وہ کہاں رکنے والی تھی ۔ اس نے بھی ساری دولت اڑادی اور بھکارن بن گئی ۔ رقیہ اسے بڑی عزت سے گھر میں لائی اور اچھی طرح اس کی مہمان نوازی کی ۔ اس کی مہمان نوازی دیکھ کر اس عورت کی آنکھوں میں سے آنسو بہنے لگے اور وہ گڑگڑا کر معافی مانگ کر کہنے لگی : تم سچ کہتی تھی کہ علم سب سے بڑی دولت ہے ۔ بچو! علم سب سے بڑا سرمایہ ہوتا ہے ۔ سچ ہے کہ دولت ہاتھ کا میل ہوتا ہے ۔ علم کے ساتھ اگر محنت اور خوش اخلاقی بھی ہوتو وہ قیامت تک باقی رہتی تھی ۔ اس لئے والدین کو چاہئے کہ اپنی اولاد کو تعلیم کی طرف متوجہ کریں کیونکہ علم اگر لٹایا جائے تو وہ کم نہیں ہوتا بلکہ اور زیادہ بڑھتا ہے ۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ ہم سب کو علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔