علم انسانی کی برتری

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم حاصل کرنے کے لئے اگر چین بھی جانا پڑے تو جاؤ‘‘۔ فنی اعتبار سے اس حدیث شریف کو خواہ کتنا ہی ضعیف قرار دیا جائے، مگر اس کے تاریخی حقائق بڑے چشم کشا اور بصیرت افروز ہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف بُعدِ مسافت کی وجہ سے آپﷺ نے چین کا ذکر فرمایا ہے، کیونکہ حجاز، ایشیا کے ایک سرے پر ہے تو دوسرے سرے پر چین ہے، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ عہد قدیم میں روم، ایران، مصر اور یونان کو ہی علمی فوقیت حاصل نہیں تھی، بلکہ بہت پہلے ہندوستان کو بھی علمی برتری حاصل رہی ہے اور اس سے پہلے دنیائے علم و فن میں چین اپنا لوہا منواچکا تھا۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چین کی برتری کا علم کیسے ہوا؟۔ اس کی وجہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تجارتی سفر تھے۔ اس زمانے میں عمان میں سال میں ایک بار عالمی میلہ لگتا تھا، دنیا کے مختلف ممالک سے تاجر آتے تھے۔ اس بازار میں چین کے تاجر بھی پہنچتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہاں تشریف لایا کرتے تھے۔ تاریخ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ سفر ثابت ہیں۔ آپﷺ نے چین کی ریشمی صنعت کو یہیں ملاحظہ فرمایا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چین کی یہ صنعت بالخصوص پسند تھی۔ ان ہی تاجروں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چین کے حالات معلوم ہوتے رہے۔

عہد رسالت اور اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ عرب کے بادیہ نشین علوم و فنون کے پرچم لہراتے ہوئے نصف صدی کے اندر اندر ربع مسکون پر چھا گئے اور ان کو یہ برتری علم کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ قرآن کریم سے مسلمانوں کو جن جن علوم کے اشارے ملے، انھوں نے ان اشاروں پر تحقیقات کیں اور دنیا کو علم و آگہی سے مالا مال کردیا۔ آج جن سائنسی علوم کی بنیاد پر دنیا جو ترقی کر رہی ہے، یہ بنیادیں مسلمانوں ہی کی رکھی ہوئی ہیں، لیکن بعد میں ہم پر غفلت چھا گئی اور ہم نے اپنی تحقیقات اور اپنا علمی سرمایہ اغیار کی جھولی میں ڈال دیا۔

ہماری علمی برتری اور عروج کا زمانہ پانچ صدیوں پر محیط رہا، اس عرصہ میں مسلمانوں کے نزدیک علم بس علم تھا، علم دین اور علم دنیا کی کوئی تفریق نہ تھی، لیکن رفتہ رفتہ قرآن، حدیث اور فقہ کا علم ہی علم دین کہلانے لگا اور سائنسی علوم کو علوم دنیا سمجھا جانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے دین کے لئے جو تقدس آمیز القاب استعمال ہوئے اور انھیں عزت و احترام کا جو بلند مقام ملا، سائنسی علوم کے حامل علماء اس سے یکسر محروم نظر آتے ہیں۔ چنانچہ یعقوب کندی، یحییٰ بن ابی منصور، محمد بن موسیٰ خوارزمی، ابونصر فارابی، محمد بن زکریا رازی، ابوالوفاء بوزجانی، ابن ہیشم، ابن مسکویہ، بوعلی سینا، محمد بن طاہر سجستانی، ابن رشد، محمد بن عبد الکریم المہندس وغیرہ بے شمار علماء ہیں، جن کے ناموں کے ساتھ کوئی تقدس آمیز سابقہ یا لاحقہ نہیں لگتا، محض اس لئے کہ یہ فلسفہ اور سائنسی علوم کے حاملین تھے اور علوم دنیا کے حاملین سمجھے جاتے تھے۔ ان علوم میں ان کو عزت و احترام کا وہ مقام حاصل نہ ہوسکا، جو علمائے دین کو حاصل ہوا۔ علم کی یہی تقسیم یعنی ’’علم دین‘‘ اور ’’علم دنیا‘‘ مسلمانوں کو لے ڈوبی، حالانکہ یہ تقسیم نہ قرآن نے کی اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔

جن جن علوم کو علوم دنیا سمجھا گیا، وہ درحقیقت سائنسی اور تجرباتی علوم تھے۔ یہ علم اشیاء کی شاخیں تھیں، جو حضرت آدم علیہ السلام کو سکھایا گیا تھا۔ ’’وعلَّم اٰدم الْاسماء کلھا‘‘ سے مراد یہی علم تھا۔ عربی میں ’’اسم‘‘ کا مفہوم، اُردو کے لفظ ’’نام‘‘ سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ عربی میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’اسم‘‘ وہ ہے، جس کے ذریعہ کوئی چیز جانی پہچانی جائے۔ امام راغب اصفہانی نے اس کی مزید وضاحت کی ہے کہ ’’الاسم مایعرف بہ ذات الشیء‘‘۔ تفاسیر میں اس کی مفصل وضاحتیں موجود ہیں۔ سورۂ بقرہ کی آیات ۲۹ تا ۳۴ میں زمین و آسمان کی حقیقتوں سے پردہ اٹھاکر بتایا گیا کہ ’’اے انسان! یہ سب کچھ تیرے لئے ہے۔ تیرے سرپر ہم تاج خلافت رکھ رہے ہیں اور ملکوتیت تیرے آگے سجدہ ریز ہوگی‘‘۔ فرمایا: ’’وہی تو ہے جس نے زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے پیدا کیں، پھر زمین سے ماوراء کی طرف توجہ فرمائی تو اس کے طبقات بنادیئے، وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ذرا اس وقت کا تصور کرو جب (اے انسان!) تیرے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنا رہا ہوں تو انھوں نے کہا: آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر فرما رہے ہیں، جو اس کے نظام کو بگاڑ دے گا اور بڑا خون خرابہ کرے گا، حالانکہ ہم آپ کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح اور تقدیس تو کرہی رہے ہیں۔ فرمایا: میں جانتا ہوں جو کچھ تم نھیں جانتے (اس کے بعد) اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو (یعنی انسان کو) ساری چیزوں کے نام سکھائے، پھر انھیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر تمہارا خیال درست ہے (کہ خلیفہ کے تقرر سے نظام ارضی بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ انھوں نے عرض کیا (یارب!) تیری ذات ہر نقص اور عیب سے پاک ہے، ہم کو تو اتنا ہی علم ہے جتنا تونے ہمیں دیا ہے۔ درحقیقت سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا تیرے سوا کوئی نہیں۔ پھر اللہ نے آدم سے کہا: تم ان فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ جب آدم نے ان سب چیزوں کے نام بتادیئے تو اللہ نے تعالی نے فرمایا: میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی ساری حقیقتوں کو جانتا ہوں جو تم سے پوشیدہ ہیں، تمہاری گفتہ و ناگفتہ تمام باتوں کو جانتا ہوں۔ اس کے بعد یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ (اس کی برتری تسلیم کرلو) تو سب جھک گئے، لیکن ابلیس نے انکار کردیا اور اپنی برتری کے گھمنڈ میں پڑکر نافرمانوں میں شامل ہو گیا۔
کشاف میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو اسماء کے مسمیات بتادیئے گئے۔ غرض کہ یہ ودیعت نوع انسانی کو ملی، صرف ایک شخصیت (آدم علیہ السلام) کو نہیں۔ عصر حاضر کے محققین بتاتے ہیں کہ انسانی دماغ میں تقریباً دو ارب خلیات ہیں اور آج تک انسان اپنے دماغ کی پندرہ فیصد صلاحیتوں کو استعمال کرپایا ہے اور باقی پچاسی فیصد صلاحیت ابھی اسٹور ہے، یعنی استعمال میں نہیں آئی۔ اسی علم اشیاء کی جہانگیری کو علامہ اقبال نے نکتۂ ایماں کی تفسیریں قرار دیا ہے:
ولایت ، بادشاہی ، علم اشیاء کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں؟ فقط اِک نکتۂ ایماں کی تفسیریں