علامہ سید احمد سعید کاظمی

اللہ تعالی نے جس چیز کو واجب القبول اور واجب العمل قرار دیا، وہی ہمارے لئے حجت شرعیہ ہے۔ قرآن مجید میں صاف مذکور ہے کہ ’’رسول تمھیں جو کچھ دے دیں وہ لے لو اور جس چیز سے وہ روک دیں اس سے رک جاؤ‘‘۔ عہد رسالت سے لے کر آج تک امت مسلمہ اس امر پر متفق ہے کہ اس آیت میں لفظ ’’مَا‘‘ اپنے عموم پر ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام ارشادات شامل ہیں۔ بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ام یعقوب آئیں اور انھوں نے دریافت کیا کہ ’’آپ نے گوندھنے والی اور گوندھوانے اور پیشانی کے بعد اکھاڑنے والی اور اپنے دانتوں کو کشادہ کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’میں اس پر کیوں لعنت نہ کروں، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی اور جو کتاب اللہ میں ملعون ہے‘‘۔ ام یعقوب نے کہا ’’میں نے سارا قرآن پڑھا ہے، اس میں کہیں میں نے وہ بات نہیں پائی جو آپ فرما رہے ہیں‘‘۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا ’’اگر تم اسے پڑھتیں تو ضرور پالیتیں، کیا تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا کہ ’’رسول تمھیں جو کچھ دے دیں وہ لے لو اور جس چیز سے وہ روک دیں اس سے رک جاؤ‘‘۔ ام یعقوب نے کہا ’’کیوں نہیں، یہ آیت تو میں نے قرآن میں ضرور پڑھی ہے‘‘۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کاموں سے منع فرمایا ہے، یعنی وہ ’’مَانَھَاکُمْ عَنْہُ‘‘ میں داخل ہیں اور بحکم خداوندی ’’فَانْتَھُوْا‘‘ ان سے بچنا ضروری ہے‘‘۔ (بخاری، جلد۲ صفحہ۷۱۵۔ مسلم، جلد۲ صفحہ۲۰۵)

معلوم ہوا کہ عہد رسالت ہی سے اس آیات کریمہ کے یہ معنی سمجھے گئے تھے کہ کسی حکم شرعی کی دلیل قرآن مجید کے صریح الفاظ ہی نہیں، بلکہ رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی حجت شرعیہ ہیں۔ نیز قرآن پاک میں یہ واضح ارشاد موجود ہے کہ ’’اپنے ہر اختلاف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم بنانا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فیصلہ کو دل و جان سے تسلیم کرنا مدار ایمان ہے‘‘۔ ’’مَاقَضَیْتَ‘‘ میں ’’مَا‘‘ اپنے عموم پر ہے، یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فیصلہ حضور کی سنت اور حدیث ہے، جسے تسلیم کرلینے پر اللہ تعالی نے ہمارے مؤمن ہونے کو موقوف فرمایا۔ جو چیز ایمان کا موقوف علیہ ہو، اس کے حجت ہونے میں کسی مؤمن کو کلام نہیں ہوسکتا۔

ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ’’ان لوگوں کو ڈرنا چاہئے، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے امر کی مخالفت کرتے ہیں، یہ کہ انھیں کوئی فتنہ پہنچے یا وہ دردناک عذاب میں مبتلا ہو جائیں‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرانا اور ان کے حق میں وعید شدید نازل فرمانا، اس بات کی روشن دلیل ہے کہ امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قولی ہو یا فعلی، بہرصورت واجب القبول اور حجت شرعیہ ہے۔
یہ درست ہے کہ عہد صحابہ کرام میں احادیث کی تدوین کتابوں کی صورت میں نہیں ہوئی، بلکہ ان کے قلوب و صدور میں یہ خزانہ محفوظ تھا، لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ عہد رسالت میں مطلقاً کتابت حدیث نہیں ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ احادیث کثیرہ سے زمانہ اقدس میں کتابت حدیث ثابت ہے، بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کرام کو حدیثیں لکھنے کا حکم فرمایا۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ہر حدیث کو یاد کرنے کے لئے لکھ لیا کرتا تھا۔ قریش کے چند لوگوں نے مجھے روکا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر سنی ہوئی بات کو لکھ لیتے ہو، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں۔ وہ غضب اور رضا دونوں حالتوں میں کلام فرماتے ہیں۔ (قریش کی یہ بات سن کر) میں کتابت حدیث سے رک گیا اور میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ’’سب کچھ لکھ لیا کرو‘‘ اور اپنی مبارک انگلی سے اپنے دہن اقدس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’جس ذات پاک کے قبضہ قدرت میں میری جان مقدس ہے، میں اس کی قسم کھاکر فرماتا ہوں کہ اس دہن مبارک سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا‘‘ (ابوداؤد، جلد۲ صفحہ۵۱۳،۵۱۴) اس حدیث میں کتابت حدیث کا صریح حکم وارد ہے اور جن روایات میں ’’لَاتَکْتُبُوْا عَنِّی سِوَی الُقُرْاٰن‘‘ آیا ہے، ان کا مقصد یہ ہے کہ قرآن پاک کے ساتھ اور کچھ نہ لکھو، کہیں ایسا نہ ہو کہ قرآن غیر قرآن کے ساتھ مخلوط ہو جائے۔ معلوم ہوا کہ نفس کتابت حدیث عہد رسالت میں ثابت ہے، البتہ کتابی صورت میں تدوین حدیث اس وقت نہ ہوئی۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’یقیناً تم لوگوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘ (سورۃ الاحزاب۔۲۱) نیز فرمایا ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی‘‘۔ اس کے علاوہ بار بار اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کی مخالفت کرنے والوں کو عذاب الیم (دردناک عذاب) سے ڈرایا گیا۔ ان تمام ارشادات ربانی کا مفاد یہ ہے کہ صحابہ کرام سے لے کر قیامت تک ہر مؤمن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور احوال مقدسہ کو پوری طرح پیش نظر رکھے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ وہ اقوال و افعال اور احوال مبارکہ محفوظ ہوں۔ اسی لئے تقریباً دس ہزار صحابہ کرام نے احادیث مقدسہ اپنے سینوں میں محفوظ کرکے ان کو تابعین تک پہنچایا اور تابعین نے تبع تابعین تک، پھر اسی طرح سنن مقدسہ و احادیث کریمہ کی نعمت عظمی ہم تک پہنچی۔

ان صحابہ کرام میں جن حضرات کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ اگر انھوں نے ’’اِکْثَارِ فِی الرَّوَایَۃ‘‘ سے کام لیا تو وہ خطا میں واقع ہو جائیں گے، انھوں نے قلت روایت کو اختیار کیا اور جنھیں یہ اندیشہ نہ تھا، انھوں نے ’’اِکْثَارِ فِی الرَّوَایَۃ‘‘ پر عمل کیا۔ درحقیقت ہر دو گروہ کا طرز عمل اس حکمت ایزدی کے موافق تھا کہ خاصان بارگاہ رسالت روایت حدیث میں محتاط رہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مقدسہ کی تبلیغ ہو جائے۔ مقلین صحابہ کرام میں خلفائے راشدین حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہما خاص طورپر قابل ذکر ہے، جب کہ مکثرین صحابہ کرام میں سے بعض حضرات کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں: حضرت ابوہریرہ، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت جابر بن عبد اللہ، حضرت انس بن مالک، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔

اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے روایت حدیث میں سب سے اعلی مرتبہ پانے والے تابعین کرام میں بعض کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں: حضرت سعید بن مسیب، حضرت حسن بصری، حضرت محمد بن سیرین، حضرت عروہ بن زبیر، حضرت سیدنا علی بن حسین، حضرت مجاہد، حضرت قاسم بن محمد بن ابوبکر، حضرت ہمام بن منبہ، حضرت سالم بن عبد اللہ بن عمر، حضرت نافع مولیٰ بن عمر، حضرت سعید بن جبیر، حضرت ابن شہاب زہری، حضرت عکرمہ مولیٰ بن عباس، حضرت عطا بن رباح، حضرت قتادہ بن دعامہ، حضرت عامر الشعبی، حضرت ابراہیم نخعی، حضرت یزید بن ابی حبیب رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔

جن تابعین کرام نے صحابہ کرام سے احادیث نبویہ کو روایت کیا، وہ مختلف شہروں اور مرکزی علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ مثلاً مدینہ منورہ میں چار سو چوراسی (۴۸۴) تابعین کے حالات طبقات ابن سعد وغیرہ کتب تاریخ و سیر میں ملتے ہیں۔ اسی طرح مکہ مکرمہ میں ایک سو اکتیس (۱۳۱)، کوفہ میں چار سو تیرہ (۴۱۳)، بصرہ میں ایک سو چونسٹھ (۱۶۴) تابعین کرام کے اعداد و شمار، ان کے مفصل حالات بالخصوص علم حدیث سے ان کے شغف کا تذکرہ کتب فن میں موجود ہے۔ (اقتباس)