حیدرآباد 4 اکٹوبر (سیاست نیوز) انسان کے عزائم بلند ہوں اور وہ کچھ کر دکھانے کی ٹھان لیں تو پھر حالات کبھی رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ اس کا ثبوت عقیلہ عبداللہ نے دیا جو کیرالا کے مالابار علاقہ میں ایک چھوٹے سے دیہات میں رہتی ہیں لیکن اُنھوں نے یہ ثابت کردیا کہ سخت محنت اور جانفشانی کے ذریعہ ترقی کی بلندیوں کو چھوا جاسکتا ہے۔ اس گاؤں میں تعلیم کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور لڑکیوں کی تعلیم کے معاملہ میں تو یہ عام ذہن پایا جاتا ہے کہ پرائمری سطح تک اسکول میں تعلیم حاصل کرلی جائے تو یہ کافی ہوجائے گا۔ لیکن عقیلہ عبداللہ کے والد نے اپنی دختر کی تعلیم کے معاملہ میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ وہ مشرق وسطیٰ میں ملازم ہیں اور اُنھوں نے اپنی اہلیہ سے جو اسی گاؤں کے اسکول میں ایک ٹیچر ہیں، یہ ہدایت دی تھی کہ بچوں کی تعلیم کے معاملہ میں کوئی کوتاہی نہ برتی جائے۔ عقیلہ عبداللہ نے میڈیسن میں تعلیم حاصل کی لیکن وہ آئی اے ایس بننا چاہتی تھیں۔ اُن کے شوہر جو میڈیکل کالج میں ساتھ ہی پڑھتے تھے، اِس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں نمایاں رول ادا کیا۔ عقیلہ نے بتایا کہ وہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتی تھیں اور اُن کی والدہ ایک اسکول ٹیچر ہونے کی بناء تعلیم کو نمایاں اہمیت دیا کرتی تھیں اور اُنھوں نے چوتھی جماعت تک پرائمری اسکول میں تعلیم حاصل کی، اس کے بعد اُن کے والد نے اُنھیں کوزی کوڈ میں واقع بورڈنگ اسکول بھیج دیا کیوں کہ وہ چاہتے تھے کہ اُن کی دختر انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کرے۔ عقیلہ کے بڑے بھائی اور بہن پہلے ہی بورڈنگ اسکول میں تھے۔ اُن کے والد نے کبھی تعلیم کے معاملہ میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور ہمیشہ اپنے بچوں کی تعلیم کی فکر کیا کرتے تھے۔ اُن کی نظر میں تعلیم ہی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ اُن کے والد اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ 70 کے دہے میں اُن کی ملاقات ایک جرمن خاتون سے ہوئی تھی اور اُس نے یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کا تحفہ دیں۔ چنانچہ اُن کے والد نے کبھی لڑکے اور لڑکی میں کوئی امتیاز نہیں برتا۔ بورڈنگ اسکول کے ماحول نے عقیلہ عبداللہ کی تعلیم سے دلچسپی کو بڑھانے میں نمایاں رول ادا کیا۔ یہاں وہ تقریری، تحریری مقابلوں اور کوئز میں حصہ لینے لگیں۔ عقیلہ عبداللہ کو آئی ایس اے بننے کا اس قدر جذبہ تھا کہ وہ اکثر کلاس روم کی میز پر ’’آئی اے ایس‘‘ لکھا کرتی تھیں۔ وہ ملک اور قوم کی ترقی میں اہم رول ادا کرنا چاہتی تھیں۔ چنانچہ جب اُن کی تعلیم کا مرحلہ پورا ہوا اور اُنھوں نے ایم ای ایس میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تو اُس وقت اُنھیں یہ یقین ہوچکا تھا کہ وہ آئی اے ایس جیسے باوقار عہدہ پر پہونچ سکتی ہیں۔ وہ میڈیسن کی تعلیم حاصل کررہی تھیں لیکن اُن کا اکثر وقت لائبریری میں میگزین اور اخبارات پڑھنے کے ساتھ ساتھ جنرل نالج میں اضافہ پر صرف ہوتا تھا۔ اِسی دوران اُن کی ملاقات ربیع نامی طالب علم سے ہوئی جو اُنہی کے ساتھ اِس کالج میں میڈیسن میں داخلہ لیا تھا۔ بعدازاں ان دونوں نے شادی کرلی۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد اُن کے شوہر نے آئی اے ایس بننے کے خواب کو پورا کرنے میں غیرمعمولی رول ادا کیا اور اُن کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ چنانچہ عقیلہ عبداللہ نے دہلی میں سہ ماہی کوچنگ کلاسیس میں حصہ لیا اور اُن کے شوہر اُس وقت اُن کے ساتھ تھے۔ وہ پوسٹ گرائجویٹ انٹرنس امتحان کی تیاری کررہے تھے۔ عقیلہ عبداللہ نے سیول سرویسس امتحانات میں شرکت اور نتائج کی تمام تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ ایک مرحلہ پر وہ حمل سے تھیں لیکن اُنھوں نے مشکلات کی پرواہ نہ کی اور اپنے مقصد کو پیش نظر رکھا جس میں اُنھیں کامیابی ملی۔ حجاب کے بارے میں عقیلہ عبداللہ نے کہاکہ اُنھوں نے کبھی اِسے ترقی میں رکاوٹ نہیں سمجھا۔ اُنھوں نے بتایا کہ اُن کے گھر اور محلہ میں برقعہ کا رواج ہے۔ وہ جس وقت اسکول جاتی تھیں تب بھی ڈوپٹہ اوڑھا کرتی تھیں۔ اب جبکہ وہ ایک آئی اے ایس آفیسر ہیں کیا اُنھیں حجاب ترک کرنا چاہئے؟ اس سوال کا جواب وہ خود اس طرح دیتی ہیں کہ جب دستور میں اُنھیں اس کی آزادی دی گئی ہے تو پھر وہ کیوں اپنی شناخت تبدیل کریں گی۔ اُنھوں نے کہاکہ زندگی میں پہلی مرتبہ اُن سے لباس کے بارے میں سوالات کئے جارہے ہیں وہ نہیں چاہتیں کہ اس طرح کے سوالات کو زیادہ اہمیت دی جائے۔ ہندوستان ایک عظیم ملک ہیں اور یہاں آپ جیسے چاہیں جس طرح چاہیں زندگی گزار سکتے ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ شخصی آزادی کے معاملہ میں کسی طرح کا کوئی جبر نہیں ہونا چاہئے۔ عقیلہ عبداللہ، گاندھی جی کی تعلیمات سے بے حد متاثر ہیں۔ اس کے علاوہ بھگت سنگھ اور اے پی جے عبدالکلام سے بھی انھیں تحریک ملی۔ لیکن جن تین شخصیتوں نے اُنھیں اس مقام تک پہونچنے میں مدد کی وہ اُن کے والدین اور شوہر ہیں۔ عقیلہ عبداللہ کا پیام یہ ہے کہ عزم و استقلال کے ساتھ کی گئی محنت رائیگاں نہیں جاتی۔ ہمیں خود پر بھروسہ ہونا چاہئے اور ہم سخت محنت کو اپنا شعار بنالیں۔ ہمارے اندر مثبت سوچ بھی ہونی چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ ارکان خاندان کی مدد شامل ہوجائے تو پھر کامیابی آپ کے قدم ضرور چومے گی۔ کبھی یہ منفی خیال ذہن میں آنے نہ پائے کہ سماج یا دوسرے لوگ آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں بلکہ آپ خود پر بھروسہ رکھیں۔