عقائد میں تفریق کا تنازعہ

انمول بزرگوں کی باتیں ، انمول بزرگوں کا سایہ
اس چیز کی قیمت مت پوچھو جو چیز پرانی ہوتی ہے
عقائد میں تفریق کا تنازعہ
ممبئی ہائیکورٹ نے حاجی علی درگاہ کے اندر مزار شریف تک تمام خواتین کو جانے کی اجازت دینے سے متعلق عرضی پر اپنی رولنگ دی ہے۔ عدالت نے اپنی رولنگ میں یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اس کا یہ فیصلہ کسی مذہبی جذبات کی بنیاد پر نہیں کیا گیا بلکہ جنسی مساوات کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ حاجی علی درگاہ ٹرسٹ نے مزار شریف تک خواتین کے پہونچنے پر پابندی عائد کی تھی جس کو بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن نے عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ اس کے علاوہ کئی خاتون کارکنوں نے مفاد عامہ کی درخواست داخل کی تھی جن کی سماعت کے بعد عدالت نے بارگاہ کے اندر تک خواتین کو جانے کی اجازت دی مگر اس فیصلہ کو فی الفور نافذالعمل نہیں کیا جائے گا۔ ہائیکورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ ممبئی میں ساحل سمندر پر واقع حضرت حاجی علیؒ کا مزار ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں میں کافی مقبول ہے۔ عقیدت مند لوگ مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ برسوں سے ایک اصول کے تحت درگاہ انتظامیہ نے خواتین کو مزار شریف تک پہونچنے سے منع کیا تھا۔ عقیدت مندوں کے دلی جذبات اور ان کے اندر کسی بزرگ کی مزار کے تقدس کے باعث ہی زیارت و نذر و نیاز کا عمل کسی تنازعہ کے بغیر برسوں سے جاری تھا مگر جب عقیدت کو سیاسی مقاصد پر لگادیئے جاتے ہیں تو پھر مسائل اور تنازعات پیدا کرکے عقیدت مندوں کو غیر ضروری اُلجھن کا شکار بنادیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں عام طور پر مزاروں اور مندروں کے اندر خواتین کے داخلے پر کسی مخصوص ادارہ یا ٹرسٹوں کی جانب سے پابندی عائد نہیں کی گئی بلکہ عقیدت مندوں نے ازخود مقدس مقام کی حرمت کا خیال رکھ کر خود کو ایک حد تک ہی پابند کرلیا۔ لیکن ان مقامات پر بھی جنسی امتیازات کا سوال اُٹھاکر اس مسئلہ کو عدالتوں تک پہونچایا گیا تو یہ بعض کی جگہ معیوب حرکت سمجھی جائے گی اور بعض کو بہتر اقدام متصور ہوگا۔ مذہبی مقامات میں خواتین کے داخلے کی تحریک چلانے کا مقصد چاہے کچھ بھی ہو اس طرح کے تنازعات ہندوستانی سماج بالخصوص مسلم معاشرہ کے حق میں منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جب کوئی سیاسی قیادت خود کو بشریت یا انسانیت سے بھی اونچا درجہ سمجھتی ہے تو اس طرح کے تنازعہ پیدا کرنے والوں کو میدان عمل میں چھوڑ دیتی ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کی جہالت بہت ہی زیادہ جہالت ہوتی ہے۔ کسی بھی معاملہ کے ساتھ تقدس کا اضافہ کردیا جائے تو پھر اس معاملہ کو اٹھائے پھرنے والوں کی ہر حرکت یا عمل کو مقدس بتانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسے زیرغور یا زیر تنقید نہیں لایا جاسکتا۔ ممبئی کی حاجی علی درگاہ یا کوئی بھی مذہبی مقام کسی بھی طرح سیاسی سرگرمیوں کا مرکز نہیں ہوسکتی مگر حالیہ برسوں میں ہندوستان کے اندر مذہبی مقامات اور مذہبی معاملوں کو غیر ضروری متنازعہ بناکر اصل مسائل کو دفن کردیا جاتا ہے۔ عام شہریوں یعنی عوام کو آگے اور اوپر لانے کا ذکر جن زبانوں پر ہوتا ہے وہی لوگ اپنی ناکامیوں کو پوشیدہ رکھنے کے لئے مختلف مسائل اور تنازعات کو ہوا دینے لگتے ہیں۔ ہندوستان کی فرض شناس عدلیہ نے مقدس مقامات کے معاملوں میں کئی فیصلے کئے ہیں ان میں سے کچھ فیصلے درست بھی ہیں اور کچھ واقعات کے تقاضوں کو ترس رہے ہوتے ہیں۔ ہندوستانی معاشرہ میں بعض مسائل بہت دلچسپ اور اتنے ہی نظر و فراز بھی ہوتے ہیں جن کے اندر سے مزید مسائل اور حقائق بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس کی مثال حاجی علی درگاہ کے کیس میں مل سکتی ہے کیوں کہ عقائد کے معاملوں پر بھی سیاسی مفادات پڑرہے ہیں تو بھوک، جہالت اور بیماریوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے کوشش کیسے ہوگی۔ صرف اُمیدوں، اندازوں اور خواہشوں کے اندر سے یہ اندیشہ بھی جھانکنے لگا ہے کہ ہندوستان کی سیاسی طاقتیں دھیرے دھیرے عقائد اور مقدس مقامات کے راستے معاشرہ کو اُلجھنوں سے دوچار کردینا چاہتی ہیں۔ مکروہات کو بڑھاوا دینا، عقائد کے معاملوں میں تفریق کا مسئلہ اُٹھاکر ہندوستانی معاشرہ کی آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دکھائی جارہی ہے جو باعث تشویش ہے۔ خواتین کو سہارا بناکر درگاہوں، مقبروں اور مقدس مقامات تک اپنے ناپاک ہاتھ دراز کرنے کی منظم سازش کرنے والوں سے کس طرح چوکس رہیں۔ کیا یہ غور طلب موضوع نہیں ہے؟
نریندر مودی سے محبوبہ مفتی کی ملاقات
جموں و کشمیر میں گزشتہ 50دن سے جاری بدامنی، تشدد اور سکیوریٹی فورسیس کی جانب سے پیلیٹ گنس کے استعمال سے پیدا شدہ سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لئے چیف منسٹر محبوبہ مفتی نے وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کرکے کشمیر کے تمام فریقین سے مذاکرات کے لئے زور دیا۔ وادی کی سنگین صورتحال پر اتنی طویل خاموشی کے بعد ریاستی حکمراں نے مرکز سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ محبوبہ مفتی کے رول پر اٹھنے والے سوالات کے درمیان کشمیری عوام کو روزانہ نازک کیفیت سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت نے وادی کے علیحدگی پسندوں کو کشمیری عوام کو سڑکوں پر لاکھڑا کرنے کا موقع مل گیا۔ اپنے ہی عوام کے احتجاج سے نمٹنے میں ناکام محبوبہ مفتی زیرقیادت پی ڈی پی اور بی جے پی حکومت کو یہ اعتراف کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا کہ وادی میں حکومت کا نہیں صرف فوج کا کنٹرول ہے۔ کشمیری عوام تک جس حکومت کو بروقت پہونچنے کی ضرورت تھی وہاں فوج کو اپنے طریقہ سے مسائل سے نمٹتے دیکھا گیا جس کے نتیجہ میں حالات دن بہ دن نازک ہوگئے۔ کشمیر کے علیحدگی پسندوں کے بارے میں محبوبہ مفتی کا یہ تبصرہ بھی غور طلب بن گیا کہ وادی کی بدامنی کے لئے صرف 5 فیصد عوام ذمہ دار ہیں جبکہ 95 فیصد لوگ امن و امان کے خواہاں ہیں۔ جب چیف منسٹر خود یہ متصور کررہی ہیں کہ وادی میں صرف 5 فیصد عوام کی وجہ سے گڑ بڑ ہورہی ہے تو پھر ان کی حکومت ان سے نمٹنے میں ناکام کیوں ہے؟ سڑکوں پر جمع ہوکر احتجاج کرنے والوں کے بارے میں ایک حکمراں کی رائے جو کچھ بھی ہو اس مسئلہ کو نظرانداز کرتے ہوئے حالات کو اس موڑ تک پہونچانے کے لئے خود حکومت کو ذمہ دار سمجھا جارہا ہے۔ محبوبہ مفتی کو روز اول سے ہی وادی کشمیر کی صورتحال کو دھماکو ہونے سے روکنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی۔ پی ڈی پی ۔ بی جے پی کے اتحاد کے لئے جو ایجنڈہ مرتب کیا گیا تھا اس کو روبہ عمل لانے میں بھی ناکام ہونے کا حکومت اگر درپردہ طور پر اعتراف کررہی ہے تو پھر وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کرکے وادی کشمیر کی صورتحال کو بہتر بنانے مرکز سے مداخلت کی اپیل کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ریاستی حکومت کا اپنے ہی نظم و نسق پر کنٹرول نہیں ہے۔ وادی میں گزشتہ 50 دن سے کرفیو، عام زندگی کے مفلوج ہونے اور تجارتی سرگرمیوں ٹھپ ہونے کی وجہ سے روزانہ کروڑہا روپئے کا نقصان ہورہا ہے۔ یہ ایسا نقصان ہے جس کی پابجائی نہیں ہوسکتی۔ مرکز کی جانب سے اگر خصوصی پیاکیجس کا بھی اعلان کیا جائے تو وادی کو درپیش نقصانات سے باہر نکالنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ لہذا وادی کشمیر میں تشدد کی نوبت کسی بھی صورت نہ آنے کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کا مضبوط ہونا  ضروری ہے۔