عظیم روایات سے انحراف کے نتیجہ میں عدم رواداری اور خواتین پر مظالم

نامور سماجی کارکن سنگیتا گپتا کا تاثر، حکومت سے زیادہ سماجی تنظیموں پر ذمہ داری، روزنامہ سیاست کی خدمات کی ستائش
حیدرآباد۔27 اگست (سیاست نیوز) ملک میں عدم رواداری اور خواتین پر مظالم کے واقعات میں اضافہ باعث تشویش ہے۔ ملک کی عظیم روایات سے انحراف کے نتیجہ میں یہ صورتحال پیدا ہوئی۔ ایسے وقت جبکہ حکومت واقعات پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے، غیر سرکاری تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ متحدہ طور پر ان برائیوں کے خاتمے کے لیے جدوجہد کریں۔ مشہور سماجی کارکن اور سابق چیف کمشنر انکم ٹیکس سنگیتا گپتا نے آج سیاست سے خصوصی بات چیت میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ سنگیتا گپتا بیک وقت سماجی کارکن کے علاوہ شاعر، آرٹسٹ اور فلم میکر ہیں۔ ان کے ہندی کلام کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے اور پاکستان کے گلوکار نے ان کے نغموں پر مبنی البم تیار کیا جسے اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے ریلیز کیا تھا۔ آئی آر ایس 1984 بیاچ سے تعلق رکھنے والی سنگیتا گپتا نے 40 برس تک محکمہ انکم ٹیکس میں نمایاں خدمات انجام دیں اور سرویس کے دوران ہی انہوں نے سماجی سرگرمیوں پر توجہ دینا شروع کردیا تھا۔ سرویس کے دوران وہ اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو روک نہیں پائیں اور کئی منتخب مشاعروں میں کلام بھی سنایا۔ ہندوستان اور پاکستان کے سرکردہ سماجی اداروں اور شخصیتوں سے ان کے روابط ہیں جس کے ذریعہ وہ تہذیب کے فروغ کے اقدامات کررہی ہیں۔ ان کے آرٹس کے نمونوں کی نمائش پاکستان کے لاہور میں منعقد کی گئی تھی جسے بے حد سراہا گیا۔ حیدرآباد میں آمد کے موقع پر انہوں نے دفتر سیاست پہنچ کر مختلف تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔ سیاست کی جانب سے فن خطاطی کے فروغ کی ستائش کرتے ہوئے سنگیتا گپتا نے فیصلہ کیا کہ وہ خود اردو لکھنا سیکھ لیں گی۔ مذہب کی بنیاد پر عدم رواداری اور فرقہ پرست طاقتوں کی جانب سے ہجومی تشدد کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے ریٹائرڈ آئی آر ایس عہدیدار نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام کا موجودہ سسٹم پر اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اس کے علاوہ لوگ اپنی ناراضگی اور ناکامی کا اظہار دوسروں پر ظلم کرتے ہوئے کررہے ہیں۔ ہجومی تشدد کے ساتھ ساتھ گھریلو تشدد کے واقعات بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ صرف قوانین مدون کرنے سے تشدد کو روکا نہیں جاسکتا۔ قانون پر عمل آوری اور عوام کے ذہن کو تبدیل کرنا ہوگا۔ عوام کے ذہن سے یہ بات نکالی جائے کہ ہر مسئلہ کو مذہبی رنگ سے نہ جوڑیں۔ یہ رجحان ملک کی ترقی اور استحکام میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سماجی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام میں شعور بیدار کریں تاکہ نفرت کا پرچار کرنے والوں کو شکست ہو۔ سنگیتا گپتا نے کہا کہ آج بھی سماج میں لڑکی کو دوسرے درجے میں رکھا گیا ہے۔ کسی گائوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک شخص نے اپنی لڑکی کا نام ناراض رکھا اس کے پاس بکری بھی ہے، این جی او نے جب لڑکی کا نام ناراض رکھنے کی وجہ دریافت کی تو وہ شخص نے جواب دیا کہ لڑکی اس کی چوتھی اولاد ہے اور اسے چار بھی لڑکیاں ہوئی ہیں جس کے باعث نام ناراض رکھا گیا ہے۔ اس شخص کا خیال تھا کہ بکری اس کے لیے ایک اثاثہ ہے جبکہ لڑکی اس کے لیے واجبات کی طرح ہے جس کی پرورش کے علاوہ شادی پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ سنگیتا گپتا نے کہا کہ سماج میں آج بھی اس طرح کی ذہنیت کی برقراری باعث شرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین پر مظالم اور عصمت ریزی کے واقعات میں حالیہ عرصہ میں اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری ادارے قانون کے نفاذ میں ناکام ثابت ہوئے ہیں جس کا فائدہ ملزمین اٹھارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی مذہب میں خواتین کو بلند درجہ دیا گیا ہے اور اس کا احترام لازمی ہے۔ نئی نسل چوں کہ ہندوستانی روایات سے دور ہوچکی ہے لہٰذا خواتین کے احترام کا جذبہ باقی نہیں رہا۔ پرتھوی تنظیم کے ذریعہ وہ ہندوستانی روایات کے احیاء کے مشن پر ہیں۔ سنگیتا گپتا نے اردو زبان کے مستقبل کو تابناک قرار دیا اور کہا کہ بعض گوشوں کی جانب سے یہ پروپگنڈہ کیا جارہا ہے کہ اردو دم توڑ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان اپنے اندر خود ایسی طاقت رکھتی ہے کہ غیر اردو داں بھی اس کی مٹھاس اور سلیس انداز سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر دور میں زبان کے پڑھنے والوں کی تعداد میں کمی پیشی ہوتی ہے۔ سنگیتا گپتا بنیادی طور پر لکھنو سے تعلق رکھتی ہیں اور بعد میں دہلی ان کا وطن بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ اردو کا تحفظ حکومت کی نہیں بلکہ اردو والوں کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے اپنے دورے کا ذکر کرتے ہوئے سنگیتا گپتا نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے فنکار اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے عوام آپس میں رشتوں میں بہتری کے حق میں ہیں۔ سنگیتا گپتا نے دونوں ممالک میں ثقافتی وفود کے تبادلے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ہندوستانیوں کو مہمان کی حیثیت سے تعظیم کی جاتی ہے۔ کشمیر میں اپنی دو سالہ خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے سنگیتا گپتا نے بتایا کہ عوام سے بہتر روابط کے ذریعہ صورتحال کو معمول پر لانے میں مدد مل سکتی ہے۔ سنگیتا گپتا نے سیاست کی خدمات کی ستائش کی اور منیجنگ ایڈیٹر جناب ظہیرالدین علی خاں کو پیشکش کیا کہ ان کی تنظیم کی جانب سے دہلی میں خطاطی کی نمائش کا اہتمام کیا جائے۔