عشرہ آخرہ کا اعتکاف

تربیت روح وتزکیہ نفس میں روزہ کواکسیرکی حیثیت حاصل ہے ،جن شرائط وآداب کی رعایت کے ساتھ روزہ رکھا جاناچاہئے ویسے روزہ رکھا جائے توملکوتی صفات غالب اور بہیمی صفات مغلوب ہوں گے ،روزہ گویا تربیت نفس کا ایک نصاب (کورس)ہے ، تربیت نفس کی یہ نعمت جن کو نصیب ہوجائے وہ اللہ سبحانہ کے مطلوب بندوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔روزہ کی روح یہ ہے کہ اس سے تقوی پیداہو،تقوی کی وجہ دائرہ شریعت میں رہتے ہوئے زندگی گزارنا آسان ہوجاتا ہے،ماہ صیام کے دوعشروں میں روزہ رکھنے سے جوتعلق مع اللہ قائم ہوتاہے اس میں مزیدروح اورجان پیداکرنے کیلئے اعتکاف کی عبادت مشروع کی گئی ہے۔انسان جوسرتاپااحتیاج ہے اللہ سبحانہ کی رضاکیلئے اس کا جائزامورجیسے کھانے ،پینے وغیرہ سے دست کش ہوجانا اس کو محتاج ہوکربھی کچھ وقت کیلئے ہی کیوں نہ ہو جائزاحتیاجات سے رک جانا اللہ سبحانہ تعالی کی صفت عدم احتیاج سے متصف بنادیتا ہے اوروہ روزہ کی وجہ’’تخلقوا باخلاق اللّٰہ‘‘کا مظہربن جاتاہے ۔ اللہ سبحانہ بندوں کومعاف فرماتاہے اور معاف کرنے والوں کوپسندفرماتاہے،بندوںپروہ احسان فرماتا ہے اوراحسان کرنے والے بندوں کومحبوب رکھتاہے، بندوں پررحم فرماتاہے اوربندوں پررحم کرنے والے بندوں کومحبوب رکھتاہے،روزہ رکھنے سے اس جیسی بہت سی محبوب صفات روزہ داروں میں پیداہوجاتی ہیں۔ اعتکاف مزیدان جیسے صفات محمودہ ،خصائل حمیدہ اوراخلاق عالیہ میں مزیداستحکام پیداکرنے کا وسیلہ بنتا ہے،اعتکاف دراصل اللہ سبحانہ کے دربارعالی میں حاضری اورپوری یکسوئی کے ساتھ اس کی طرف توجہ کا نام ہے،رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے اعتکاف کا یہی مقصودہے ،قرآن مجیدکے نازل ہونے سے پہلے سیدنا محمدرسول اللہﷺ اکثر اوقات غارحرامیں ذکروفکرویادالہی میں بسرکیا کرتے،یہ خلوت وتنہائی گویا اعتکاف ہی کی ایک شکل تھی۔پھرآپﷺتادم آخر آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے رہے،

آپﷺکے بعدازواج مطہرات(امہات المومنین)رضوان اللہ علیہن اجمعین نے بھی اس کوجاری رکھا(ابوداود،باب الاعتکاف: ۱؍۳۳۴)آپﷺنے چونکہ ہمیشہ اس پرمواظبت فرمائی ہے،یہاں تک کہ سفردرپیش ہونے کی وجہ ایک سال آپﷺ اعتکاف نہیں کرسکے تھے تودوسرے سال بیس دن کا اعتکاف کیا ہے(ابن ماجہ،باب ماجاء فی الاعتکاف) اس لئے یہ اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔اگرکوئی آغازرمضان سے ابتدائی دونوں عشروں کا اعتکاف کرناچاہے تو یہ بھی مستحسن و مستحب ہے،البتہ آخری عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے ،یعنی بستی کا ایک فردیا کچھ افراد مسجدمیں اعتکاف کرلیں تو بستی میں رہنے والے دیگرتمام اصحاب کی طرف سے سنت کفایہ اداہوجائے گی۔ایک مسجدمیں ایک سے زائدافراد اعتکاف کرسکتے ہیں،آپﷺکے ساتھ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اعتکاف کی نیت سے مسجدمیں قیام کرتے تھے ،اعتکاف کی افضل ترین جگہ مسجدحرام ہے پھرمسجدنبوی پھرمسجداقصی ہے ۔اپنے شہرمیں اعتکاف کا موقع ہوتوجامع مسجدمیں اعتکاف باعث فضیلت ہے،بستی کی مسجدمیں اعتکاف کرنا چاہیے تاکہ بستی والوں سے یہ سنت اداہوجائے ، ایک بستی میں کئی مساجدہوںتوان میں سے ایک مسجدمیں کسی ایک کا اعتکاف کرلینا کافی ہے البتہ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جس مسجدمیںزیادہ مصلی نمازپڑھتے ہوں اور اس میں نمازپنجگانہ کے ساتھ جمعہ کی جماعت کا اہتمام ہوتا ہو اعتکاف کیا جائے، بہترہے کہ بستی کی تمام مساجدمیں اعتکاف کی سنت اداکی جائے ۔کسی بستی یا شہرمیں مسجدنہ ہو اور مسجدکی تعمیرمیں دشواری ہوالبتہ مسلمانوں نے کسی مکان کوعارضی طورپرہی سہی پنج وقتہ نمازباجماعت اداکرنے کیلئے منتخب کرلیا ہو، بستی یا شہر سے ایک فردیا کچھ افرادعارضی نمازگاہ میں آخری عشرہ کا اعتکاف کرلیںتوان شاء اللہ اعتکاف کی سنت جو مؤکدہ علی الکفایہ ہے اداہوجائے گی۔مسجد کاباب الداخلہ اورطہارت خانہ ،وضوگاہ مسجدمیں شامل نہیں ،الغرض مسجدکا جتنا حصہ نمازپڑھنے کیلئے خاص طورپر متعین کردیا گیا ہے اس میں کہیں بھی آنے جانے سے اعتکاف پرکچھ اثرنہیں پڑے گا،شرعی وطبعی اعذارکی بنامسجدسے باہرنکلنے کی اجازت ہے۔شرعی اعذارسے مرادجمعہ کی نمازکیلئے باہرنکلنایا مؤذن صاحب کا اذان دینے کیلئے باہرنکلناہے جبکہ اذان دینے کی جگہ بیرون مسجدہو،جمعہ کی نمازکیلئے اس وقت باہرنکلنا چاہئے

جبکہ اس مسجدمیں جمعہ کا نظم نہ ہو،اس صورت میں ایسی جامع مسجد کا انتخاب کرناچاہئے جواعتکاف والی مسجدسے قریب تر ہو،بہترہے کہ اذان کے وقت مسجدسے باہرنکلے اورجمعہ کے بعدکی سنن اداکرکے فوری واپس لوٹ جائے،جامع مسجددورہوتوجتنی دیروہاں پہنچنے میں اور پہنچنے کے بعدتحیۃ المسجد اورقبل ازخطبہ اداکی جانے والی سنت اداکرنے میں لگ سکتی ہے اندازہ کرکے اتنی دیرپہلے نکلناچاہئے۔مریض کی عیادت اورنمازجنازہ میں شرکت کی غرض سے نکلنا جائزنہیں ہے البتہ نمازجمعہ اداکرنے کی غرض سے نکلنا ہوتوجاتے یا آتے ہوئے اسی راہ میںمریض کی عیادت کرنے یا جنازہ کی نمازاداکرنے کا موقع ہو توفقہاء نے اس کی اجازت دی ہے لیکن کسی اورغرض سے مزید وہاں رکنا یا تاخیرکرنا درست نہیں،طبعی اعذار جیسے کسی پرغسل واجب ہوگیا ہویاوضوکرنا ضروری ہویابول وبراز(پیشاب،پاخانہ)کا تقاضہ ہو یا سحروافطارکے وقت کھانے کی فراہمی مشکل ہواوراس کا انتظام دشوارہوتوان جیسے شرعی و طبعی اعذارکی وجہ حدودمسجدسے باہر نکلناجائزہے۔ مسجدسے متصل طبعی تقاضوں کی تکمیل کا انتظام ہوتواس مقصدکیلئے اس سے آگے نہیں جاناچاہئے،مسجدسے متصل اس طرح کا انتظام نہ ہو یا بیرون مسجدبھی مسجدکی جانب سے اس کا کوئی نظم نہ ہوتواپنے گھرتک جانے کی اجازت ہے،عزیزواقرباء ،دوست احباب وغیرہ سے کسی کا مکان مسجدسے قریب ہواوروہاں طبعی حوائج کی تکمیل باآسانی ممکن ہوتواپنے گھرکے مقابل گوکہ قابل ترجیح ہے تاہم اپنے گھرجاناچاہے تواس کی بھی اجازت ہے۔غسل واجب نہ ہو بلکہ جمعہ کا غسل جو مستحب ہے یا تنظیف (پاکی وستھرائی)یا تبرید(ٹھنڈک حاصل کرنے)کی غرض سے غسل کرنے کیلئے باہرنکلنا درست نہیں،عصرحاضرکے بعض وسیع النظرعلماء کی رائے یہ ہے کہ خاص اس مقصد کیلئے نکلنا تودرست نہیں اس سے اعتکاف باطل ہوجائے گا،ہاں البتہ طبعی تقاضوں کی تکمیل کیلئے نکلنا ضروری ہوگیا ہوتو اس موقع پرغسل کرلیا جائے توان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں۔البتہ اس میں تاخیرغیرمناسب ہے کم سے کم وقت میں غسل کرلیا جائے، تبریدیا تنظیف کی سخت ضرورت داعی ہوتوغسل کیا جائے ورنہ اس سے احترازبہترہے۔خواتین کوبھی اعتکاف کااہتمام کرنا چاہئے، اپنے گھرمیں وہ حصہ جونمازکے لئے مختص ہوتاہے اس جگہ اعتکاف کریں،کوئی خاص جگہ نمازکیلئے متعین نہ ہوتوگھرکے کسی ایک گوشہ کو اس کیلئے مختص کرلیا جاسکتا ہے ،ان کیلئے بھی وہی احکام وآداب ہیں جومردوں کیلئے اعتکاف میں لازم ہیں،اس لئے ایسی خواتین کوچاہئے کہ تقاضائے طبعی کے سوااس جگہ سے باہرنہ نکلیں ،اعتکاف کی جگہ بیٹھے بیٹھے گھرکی دوسری خواتین سے گھریلو کام کاج لے سکتی ہیں۔اعتکاف کے کئی روحانی ومادی منافع و فوائد اوراس کی کئی حکمتیں ہیں اسکی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ،

البتہ معتکفین کواعتکاف کی روح اوراس کے مقصدکوپیش نظررکھناچاہئے،اعتکاف کی روح بس یہی ہے کہ بندہ اللہ کا ہوجائے،تعلق مع اللہ ایسا ہوکہ دنیا جہاں کی فکروں سے آزادہوکراورہرطرح کی مشغولیتوں ومصروفیتوں سے اپنا دامن چھٹراکراللہ کی رضا کیلئے اللہ سبحانہ کے گھرمعتکف ہوجائے۔نہ تومخلوق سے رشتہ توڑا جاسکتا نہ ہی زندگی گزارنے کے جائزلوازمات سے منہ موڑاجاسکتا ہے کیونکہ اسلام رہبانیت کی اجازت نہیں دیتا، البتہ اعتکاف کے دنوں میں ان سے تعلق مغلوب وکمزورکرکے اللہ سبحانہ سے تعلق جوڑنے کی حددرجہ کوشش کی جانی چاہئے،دنیا جہاں کی محبت کوکم کرکے اللہ سبحانہ کی محبت میں اضافہ کرنے کے اسباب اختیارکرناچاہئے،روزہ اور اعتکاف کی برکت سے اسی تعلق مع اللہ کی تربیت ہوجائے تو’’نورعلی نور‘‘ان شاء اللہ اس کی برکت سے دنیا کے ساتھ آخرت سنورجائے گی ۔تعلق مع اللہ کا چسکا اگرکسی کولگ جائے توپھروہ اللہ کی رضا کیلئے دنیا گزارتے ہوئے بھی اللہ سبحانہ کی محبت اوراس کے ساتھ انس وتعلق کی روحانی کیفیات سے سرشاررہے گا،حدیث پاک ’’ذاق طعم الایمان،من رضی با للہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمدﷺ نبیاً ورسولا‘‘ (ایمان کا مزہ اس نے چکھا اوراس کی لذت وحلاوت اسی کوملی جس نے اللہ سبحانہ کواپنا رب ،اسلام کواپنا دین اورمحمدﷺکواپنا نبی ورسول تسلیم کرنے پردل وجان سے راضی ہوگیا )کے مصداق وہ ایمانی حلاوت ،روحانی بشاشت کی نعمت سے بہرہ مندرہوجائے گا۔ اخروی سارے منازل آسان ہوں گے ،جہاں کوئی مونس دمسازوغمگسارنہیں رہے گا وہاں اللہ سبحانہ کی ذات عالی اس کی مونس ومددگاربن جائے گی،اس کی محبت اورتعلق مع اللہ کی نسبت سے ایسے انواروبرکات حاصل ہوں گے جوآخرت کی سخت وحشت میں راحت وتسکین کا سامان کریں گے۔