عشرت جہاں کی والدہ کو 2 لاکھ کی امداد

قارئین سیاست کی مالی اعانت اور ملت فنڈ سے مصائب کا شکار خاندان کو راحت

حیدرآباد۔/25 فروری(سیاست نیوز) جناب زاہد علی خان ایڈیٹر سیاست نے آج گجرات پولیس کے ہاتھوں فرضی انکاؤنٹر میں شہید عشرت جہاں کی والدہ محترمہ شمیمہ کوثر اور ہمشیرہ مسرت جہاں کو دو لاکھ روپے کا چیک حوالہ کیا۔ اس موقع پر منیجئنگ ایڈیٹر جناب ظہیر الدین علی خان اور نیوز ایڈیٹر جناب عامر علی خان، کانگریس قائد جناب خلیق الرحمن کے علاوہ دیگر موجود تھے۔ یاد رہے کہ سیاست کے کالم نگار جناب ظفر آغا نے اپنے کالم میں عشرت جہاں کے خاندان کی کسمپرسی اور مالی مصائب کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بدحال اور ستم رسیدہ خاندان کی مالی اعانت کی طرف اپنے قارئین کو راغب کیا تھا۔ جس پر انہیں اور ادارہ سیاست کو کئی ای میلس اور خطوط موصول ہوئے جس میں ملت کا درد رکھنے والوں نے مالی اعانت کا پیشکش کیا تھا جس پر ظفر آغا نے جذبات سے مغلوب ہوکر ایک اور آرٹیکل تحریر کیا تھا جو روزنامہ سیاست کے /29 دسمبر 2013 ء کے شمارہ میں شائع ہوا۔ اس آرٹیکل کی اشاعت کے بعد ادارہ سیاست کو قارئین سیاست کی جانب سے 1,73,000 روپے کی رقم موصول ہوئی تھی۔ جناب زاہد علی خان نے یہ فیصلہ کیا کہ موصولہ رقم میں سیاست ملت ریلیف فنڈ سے 27,000 روپے رقم کی اعانت کرتے ہوئے اس خاندان کو دو لاکھ روپے کی اعانت کی جائے، چنانچہ آج عشرت جہاں کی والدہ اور بہن کو ادارہ سیاست میں دو لاکھ روپے پر مبنی چیک حوالہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ گجرات پولیس نے عشرت جہاں کو احمد آباد میں /15 جون 2004 ء کو جاوید شیخ عرف پرنیش پلائی، امجد علی رانا اور ذیشان جوہر کے ہمراہ ایک فرضی انکاؤنٹر میں قتل کردیا گیا۔

عشرت جہاں قتل کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ انکاؤنٹر فرضی تھا۔ اس انکاؤنٹر میں گجرات پولیس کے کئی اعلیٰ افسران اور حکومت گجرات کے ملوث ہونے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ عشرت جہاں کی والدہ محترمہ نے اپنی بیٹی کی انکاؤنٹر میں ہلاکت کے خلاف گجرات ہائی کورٹ سے رجوع ہوتے ہوئے انکاؤنٹر کو فرضی ہونے کا دعویٰ کیا اور تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ ستمبر 2009 ء میں میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ ایس پی تمنگ کی عدالتی تحقیقات میں کہا گیا کہ انکاؤنٹر فرضی تھا۔ بعدازاں گجرات ہائی کورٹ نے ایس آئی ٹی کو قطعی تحقیقاتی رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی تھی جس پر ایس آئی ٹی نے /21 نومبر 2011 کو گجرات ہائی کورٹ کو بتایا کہ یہ ایک فرضی انکاؤنٹر تھا۔ گجرات ہائی کورٹ نے یکم دسمبر 2011 ء کو عشرت جہاں انکاؤنٹر کی تحقیقات سی بی آئی کو حوالہ کی۔ اس کیس میں سنٹرل انٹلی جنس اور گجرات پولیس کے اعلیٰ پولیس عہدیداروں کے علاوہ مودی حکومت کے ایک وزیر امیت شاہ کے بادی النظر میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا کہ جب عشرت جہاں کی انکاؤنٹر میں ہلاکت ہوگئی تھی اس وقت عشرت جہاں کے ارکان خاندان کو کئی مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ ان سے حتیٰ کہ رشتہ داروں نے بھی دوری اختیار کرلی تھی مگر عشرت جہاں کی والدہ محترمہ اور چھوٹی بہن نے اپنی بہن کو بے گناہ ثابت کرنے کا تنہا بیڑہ اٹھایا تھا۔ حقوق انسانی تنظیموں کی کاوشوں اور میڈیا کے ایک گوشہ کی جانب سے عشرت جہاں کو انصاف دلانے کا بیڑہ اٹھایا گیا تھا جس میں ادارہ سیاست کا بھی کلیدی رول رہا تھا۔ جناب ظفر آغا نے جب اپنے ایک آرٹیکل میں عشرت جہاں کے خاندان کی بدحالی اور کسمپرسی کا تذکرہ کیا تھا کئی قارئین سیاست نے جناب زاہد علی خان اور جناب ظفر آغا سے ربط پیدا کرتے ہوئے ان کی مالی اعانت کرنے کی پیشکش کی تھی۔ عشرت جہاں کی چھوٹی بہن کی شادی میں اعانت کے لئے قارئین سیاست نے 1.73 لاکھ روپے کی اعانت کی تھی جبکہ سیاست ملت ریلیف فنڈ سے مزید 27,000 روپے کا اضافہ کرتے ہوئے انہیں آج دفتر سیاست میں دو لاکھ روپے کا چیک حوالہ کیا۔ محترمہ شمیمہ کوثر اور مسرت جہاں نے جناب زاہد علی خان، ادارہ سیاست، جناب ظفر آغا، تمام معاونین اور عدل کے لئے ان کی جدوجہد میں ساتھ دینے والے تمام لوگوں سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان سب کے حق میں بارگاہ رب میں دعا گو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ان کی زندگی کا مقصد اپنی شہید بیٹی کو بے گناہ ثابت کرنا ہے جس کے لئے وہ اپنی آخری سانس تک جدوجہد کرتی رہیں گی۔